1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمن بسکٹ کمپنی باہلزن ’نازی دور میں جبری مشقت‘ کراتی رہی

21 اگست 2024

تحقیق کے مطابق 135 سال پرانی اس کمپنی میں 1940ء اور 1945ء کے درمیان 800 مزدوروں سے جبری مشقت کرائی گئی، جن میں اکثریت یوکرین اور پولینڈ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تھی۔

https://p.dw.com/p/4jjex
جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں باہلزن کی فیکٹری
جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں باہلزن کی فیکٹریتصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch

مؤرخین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نازی دور میں بسکٹ اور کیک بنانے والی جرمن کمپنی باہلزن میں نہ صرف بڑے پیمانے پر جبری مشقت کرائی جاتی رہی بلکہ تب نازی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے اس کمپنی کو فائدہ بھی پہنچا تھا۔

دو مؤرخین، مانفریڈ گرِیگر اور ہارٹموٹ بیرگ ہوف کی مکمل کردہ اس تحقیق کے مطابق لائبنٹز اور پک اپ نامی بسکٹ بنانے والی اس کمپنی کے کاروبار میں نازی دور میں بڑی حد تک اضافہ ہوا تھا۔

اس تحقیق کے نتائج کے مطابق 135 سال پرانی اس کمپنی میں 1940ء سے لے کر 1945ء تک 800 مزدوروں سے جبری مشقت کرائی جاری رہی، جن میں اکثریت یوکرین اور پولینڈ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تھی۔

اس تاریخی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان مزدوروں کے لیے مخصوص کپڑے کے ٹکڑے یا 'پیچز‘ پہننا ضروری تھا، جن کے ذریعے ان کی بطور غیر ملکی شناخت کی جاتی تھی اور نتیجتاﹰ ان کے ساتھ تفریق آمیز سلوک کیا جاتا تھا۔

تحقیق کی وجہ کیا بنی؟

یہ تحقیق باہلزن کی وارث ویرینا باہلزن کے 2019ء میں دیے گئے اس بیان کے بعد کی گئی، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نازی دور میں ان کی کمپنی میں جبری مشقت کرنے والے مزدوروں کے ساتھ ''اچھا سلوک‘‘ کیا جاتا تھا۔

باہلزن کی وارث ویرینا باہلزن
باہلزن کی وارث ویرینا باہلزنتصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska

ان کے اس بیان کی جرمنی میں شدید مذمت اور ساتھ اس پر تنقید بھی کی گئی تھی، جس کے بعد ویرینا باہلزن نے معافی مانگتے ہوئے اپنے اس بیان کو غلطی قرار دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد کی جانے والی تحقیق کو باہلزن نے ہی کمیشن کیا تھا اور اس ریسرچ کے لیے فنڈز بھی اسی کمپنی نے فراہم کیے۔

اس ریسرچ کے نتائج کی اشاعت سے قبل باہلزن فیملی نے ایک بیان میں کہا تھا، ''ہم اس کمپنی کی تاریخ سے متعلق زیادہ تفصیل نہیں جانتے اور سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اس بارے میں (کسی سے) پوچھا بھی نہیں۔‘‘

یہ تحقیق 600 صفحات پر مشتمل ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوئی ہے، جس میں 1911ء سے لے کر 1974ء تک کے عرصے سے متعلق باہلزن کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔

اس ریسرچ کے مصنفین کے مطابق اس کتاب کے مواد کے حوالے سے باہلزن کی جانب سے کوئی شرائط عائد نہیں کی گئیں تھیں اور اس کی تصنیف کے دوران مؤرخیں ویرینا باہلزن اور ان کے والد ویرنر باہلزن کے ساتھ رابطے میں بھی رہے۔

م ا ⁄ م م (ڈی پی اے)