1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن جیلوں میں انتہا پسندی کے رجحان کو محدود کرنے کی کوششیں

8 اگست 2019

جرمنی کی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی ایک بڑی تعداد مقید ہے۔ جرمن حکام ایسی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ان مسلمان قیدیوں میں بنیاد پرستی کا فروغ نہ ہو سکے۔

https://p.dw.com/p/3NZTt
Deutschland l Prozess um versuchten Mord in der JVA Bielefeld-Brackwede
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch

وفاقی جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فالیا کی جیلوں میں تقریباً سولہ ہزار قیدی ہیں۔ ان میں ایک چوتھائی مسلمان ہیں یعنی ہر چار میں ایک قیدی مسلمان ہے۔ ان مسلمان قیدیوں میں ایک مختصر تعداد بنیاد پرست مسلمانوں کی بھی ہے۔  نارتھ رائن ویسٹ فالیا کی وزارت انصاف نے سن 2019 کے وسط تک انتہا پسند مسلمانوں کی تعداد تینتیس بتائی ہے۔

مسلمان قیدیوں کو نارتھ رائن ویسٹ فالیا کے بوخم سمیت مختلف شہروں کی جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ اس تقسیم کی وجہ یہ خیال کی گئی ہے کہ ان کے کسی بھی ایک جیل میں اجتماع سے ان قیدیوں میں شامل انتہا پسند اپنا ایک گروپ قائم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ تاہم ڈی ڈبلیو کو مختلف جیلوں کے ایسے حصوں تک جانے کی رسائی نہیں دی گئی جہاں انتہا پسند مسلمان قیدوں کو رکھا گیا ہے۔

Neumünster JVA Carles Puigdemont inhaftiert
شمالی جرمن شہر نوئے منسٹر کی سخت سکیورٹی والی جیل کا بیرونی منظرتصویر: picture alliance/AP Photo/F. Moöter

ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ نارتھ رائن ویسٹ فالیا کی جیلوں میں بنیاد پرست مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ممکن ہے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر استغاثہ نے مختلف جیلوں میں 855 قیدیوں کے خلاف بنیاد پرست رجحان کی جانب راغب ہونے کے الزام کی تفتیش شروع کرنے کا بتایا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے ایسی ہی جیلوں میں قید ایک ترک مسلمان سے گفتگو کی۔ یہ قیدی اپنی حقیقی شناخت مخفی رکھنا چاہتا تھا اس لیے اس کا فرضی نام باتوہان رکھا گیا۔ باتوہان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جیلوں میں مذہب کئی قیدیوں کی زندگی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ باتوہان کے مطابق اُس نے بھی 'جیل میں ہی آ کر خدا کو پایا‘ ہے۔ باتو ہان کو مختلف قسم کے مالی اور ریئل اسٹیٹ فراڈ کرنے پر سزا سنائی گئی تھی۔

Deutschland Razzia gegen Islamisten in Berlin
جرمنی میں مسلم انتہا پسندی میں اضافے کا امکان پایا جاتا ہےتصویر: Reuters/H. Hanschke

جرمنی کے عوامی نشریاتی ادارے ڈبلیو ڈی آر کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شام و عراق میں جہادی تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘  کی شکست کے بعد ایک سو بیس سے زائد جرمن جہادی شام میں اس وقت زیر حراست ہیں۔ عراق میں بھی جرمن جہادیوں کی ایک قلیل تعداد جیلوں میں ہے۔ اگر یہ سبھی واپس آتے ہیں تو انہیں جرمنی میں عدالتی کارروائی کا یقینی سامنا ہو سکتا ہے۔

انتہا پسندی کے رجحانات پر نگاہ رکھنے والے جرمن محقق میشائل کیفیر کا کہنا ہے کہ جرمنی اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اور شام اور عراق سے با اثر مسلمان جہادی واپس لا کر جیلوں میں مقید کیے جاتے ہیں تر دوسرے مسلمان قیدی اُن کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ کیفیر کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ میں کیے جانے والے زیادہ تر دہشت گردانہ حملوں میں ایسے مسلمان ملوث تھے جنہوں نے جیلوں ہی میں بنیاد پرستانہ عقائد اپنائے تھے۔

ایستھر فیلڈن اور ماتھیاس فان ہائن (عابد حسین)

کولون میں انتہا پسندی کے خلاف امن مارچ