جرمن جیلوں میں قید، 150 مسلم انتہا پسند حکام کے لیے مسئلہ
21 فروری 2018جرمنی کی ’فیڈریل کریمنل پولیس‘ BKA کے دفتر سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت جرمن بھر کی مختلف جیلوں میں ایسے 150 مسلمان مذہبی انتہائی پسند قید ہیں جنہیں خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ جرمن اخبار ’ڈی ویلٹ‘ میں شائع ہونے والے ان اعداد وشمار کے مطابق یہ افراد یا تو جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں یا پھر دہشت گردی سے جڑے الزامات کے تحت زیر حراست ہیں۔
جرمن فوج کی اپنی صفوں میں انتہاپسند موجود ہیں
اخبار کے مطابق جیلوں میں قید ان افراد میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہیں شدت پسند اسلام کا ہمدرد قرار دیا جا سکتا ہے۔ جرمن ریاست ہیسے کی وزیر انصاف ایوا کؤہنے ہیورمان کے مطابق، ’’آئندہ چند برسوں میں ہماری جیلوں میں شدت پسندی بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔‘‘
خاتون وزیر انصاف نے ایسی سینکڑوں تحقیقات کا بھی حوالہ دیا جو جرمنی بھر میں شدت پسند مسلمانوں کے خلاف جاری ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے عسکریت پسند بھی شامل ہیں جو مشرق وُسطیٰ سے لوٹے ہیں جہاں وہ دہشت گرد گروپ داعش کے لیے لڑتے رہے تھے۔
ہیسے کی وزیر انصاف ایوا کؤہنے ہیورمان کے مطابق جرمن جیلوں میں قید یہ شدت پسند جرمن حکومت کی طرف سے شدت پسندی کے خاتمے اور اس سے بچنے کی کوششوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر جیلیں ان افراد میں شدت پسندی کے خاتمے اور انہیں جرمن معاشرے میں ضم ہونے کے قابل بنانے میں ناکام رہیں تو اس بات کے خطرات موجود ہیں کہ ان کی رہائی کے بعد صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں جرمن حکام نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے 2017ء کے دوران اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تعداد میں دہشت گردی کے تناظر میں تحقیقات شروع کیں۔ ان میں سے قریب 1200 تفتیشی سلسلے دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث ہونے سے متعلق تھے اور ان میں سے 80 فیصد سے زائد مسلم مذہبی انتہا پسندی سے متعلق تھے۔