1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ریاستی انتخابات: چانسلر میرکل کے لیے نئی آزمائشیں

27 مارچ 2011

آج اتوار کے روز جنوب مغربی جرمن ریاست باڈن ووایرٹمبرگ کے انتخابات کے لیے ووٹنگ ہو رہی ہے۔ ان انتخابات میں جرمن چانسلر میرکل کی جماعت کو سخت امتحان کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/10iA2
ہفتے کے روز ہزاروں کی تعداد میں جرمن عوام نے حکومت کی جوہری پالیسیوں کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیےتصویر: AP

انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو باڈن ووایرٹمبرگ میں انیس سو ترپّن سے برسرِ اقتدار ہے تاہم اس بار اس کو ایک سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ جاپان میں زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری ری ایکٹر میں خرابی پیدا ہونے اور اس کے نتیجے میں جوہری تابکاری کے اخراج کے بعد جرمن عوام وسیع پیمانے پر اپنی حکومت کی جوہری پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ عوامی احتجاج کا مرکز میرکل کی حکمران جماعت اور حکمران اتحاد بھی ہے لہٰذا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس عوامی غم  و غصّے کا اثر ان انتخابات پر بھی پڑے گا۔

دوسری جانب لیبیا کا بحران اور یورو کرنسی سے متعلق مسائل بھی چانسلر میرکل کے لیے مشکلات کھڑی کیے ہوئے ہیں۔

Pressekonferenz Merkel Westerwelle 2011 Laufzeit Atomkraftwerke Japan
میرکل کی جماعت سی ڈی یو کو کئی ریاستی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہےتصویر: dapd

جمعےکے  روز جاری کیے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق حزبِ اختلاف جماعتیں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی کے ان ریاستی انتخابات میں فتح کے امکانات زیادہ ہیں۔ سروے کے مطابق حکمران اتحاد کے خلاف اڑتالیس فیصد ووٹ جب کہ اس کے حق میں تینتالیس فیصد ووٹ پڑنے کا امکان ہے۔

اگر حکمران اتحاد کو ان انتخابات میں شکست ہوئی تو یہ ان کی گزشتہ برس مئی میں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور امسال فروری میں ہیمبرگ کی ریاستوں میں شکست کے بعد ایک اور شکست ہوگی۔

جرمن عوام کے لیے جوہری پالیسی کا مسئلہ اس حد تک اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ چانسلر میرکل کو جرمن جوہری پلانٹس کی عمر میں تین ماہ کے اضافے کا اپنا سابقہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ ان کو سات پرانے ترین ری ایکٹرز کو عارضی طور پر بند کرنے کا حکم بھی دینا پڑا جن کی اب دوبارہ جانچ پڑتال کی جائے گی۔

دوسری جانب حکومت کے ناقدین جرمن حکومت پر لیبیا کے تنازعے کے حوالے سے اختیار کی گئی جرمن پالیسی پر بھی نکتہ چیں ہیں اور ان کا موقف ہے کہ جرمن حکومت بغیر کسی پالیسی اور حکمتِ عملی کے کام کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ لیبیا کے خلاف فوجی کارروائی کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں کی گئی ایک ووٹنگ میں جرمنی نے حصّہ نہیں لیا تھا۔

رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید