1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن زبان کے پریس کی نظر میں جنوبی ایشیا کے حالات

3 مئی 2010

جنوبی ايشيا کے حالات پر جرمن زبان کے پريس کے تبصروں پر مشتمل جائزے میں اس مرتبہ کے اہم موضوعات میں جوہری ہتھیاروں تک دہشت گردوں کی رسائی کے بارے میں امریکی صدر باراک اوباما کے مؤقف اور پاکستان میں آئینی ترامیم شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/NCqJ
تصویر: AP

امريکی صدر اوباما نے ايک بار پھر خبردار کيا ہے کہ دہشت گرد، ايٹمی مواد کے ذريعے حملے کر سکتے ہیں۔ تاہم، يورپی خفيہ اداروں کے مطابق اس خطرہ بہت کم ہے۔ اخبارNeu Züricher Zeitung ايٹم بم تيارکرنے کے لئے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے کسی مقام پر کوئی لنگڑی لولی تجربے گاہ کافی نہيں ہوسکتی۔ عراق نے، صدام حسين کے دور حکومت ميں 10 ارب ڈالرز اور 7 ہزار کارکنوں کی مدد سے ايک کارآمد ايٹم بم تيار کرنے کی کوشش کی تھی ليکن وہ ناکام رہا تھا۔ سوئٹزرلينڈ کے، ايٹمی،جرثومی اور کيميائی ہتھياروں کے ماہرين کا کہنا ہے کہ انہی وجوہات کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی رياستی ادارے کے علاوہ کوئی اور ايٹم بم نہیں بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ روايتی دھماکہ خيز مادے سے کئے جانے والے کسی زبردست حملے کا بھی عوام پر اُتنا ہی نفسياتی اثر پڑتا ہے اور اس قسم کے حملے کی منصوبہ بندی بھی کسی ايٹمی حملے سے آسان تر ہے۔ اس لئے يورپ ميں سلامتی اور تحفظ کے حکام اب بھی روايتی بموں سے حملوں کی روک تھام پر توجہ جاری رکھے ہوئے ہيں۔

USA Russland Abrüstung Barack Obama Pressekonferenz
امریکی صدر باراک اوباماتصویر: AP

سوشلسٹ اخبار Neues Deutschland تحرير کرتا ہے کہ پاکستانی صدر آصف زرداری کی آئينی تراميم کا مقصد پاکستان کو جمہوريت کی ڈگر پر واپس لانا اور مشرف کی فوجی آمريت کے ورثے کو مٹا دينا ہے۔ اخبار مزيد لکھتا ہے’ درحقيقت اصلاحات کا مقصد صدارتی نظام سے منہ موڑنا ہے، جس ميں صدر کو تقريباً سارے اختيارات حاصل تھے اور پارليمنٹ اور حکومت صرف اس کی مرضی پر عمل کرتی تھيں۔ اب اکثر امور کے فيصلے عوامی نمائندوں کو منتقل ہوگئے ہيں۔ تاہم پاکستانيوں کی اکثريت کو جمہوريت کے نعروں کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔ اُنہيں، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن، بجلی کی لوڈ شيڈنگ اور دہشت گردی جيسے گھمبير مسائل کا سامنا ہے۔ وزير اعظم گيلانی کو ان مسائل کا احساس ہے۔ انہوں نے ايک تقرير ميں کہا کہ جمہوريت کو صرف باتوں سے طاقتور نہيں بنايا جا سکتا۔ اس کے لئے عمل کی ضرورت ہے۔ آئين کے تحت سبراہ حکومت پر اب اس کی زيادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اخبار Tageszeitung تحريرکرتا ہے کہ بھارت ميں قديم باشندوں کی اکثريت حکومت اور ماؤ نواز باغيوں کی جنگ کے درميان پس رہی ہے۔ بھارت ميں کہیں بھی بھوک اور غربت اتنی زيادہ نہيں جتنی کہ ملک کے قديم باشندوں ميں۔ بہت سے بھارتی، اچھوتوں کی طرح اب بھی اُنہيں نچلی ذات کا سمجھتے ہيں، جس طرح ايک زمانے ميں مسيحی مشنريوں کی طرف آنے والے اچھوتوں ميں اضافہ ہوا تھا، اُسی طرح اب قديم باشندوں ميں سے فعال اور تخليقی صلاحيتوں کے حامل افراد ماؤ باغيوں کی جانب کھنچ رہے ہيں۔ تاہم جنگلاتی علاقوں ميں بسنے والے عام افراد کی اکثريت چکی کے دو پاٹوں کے درميان پس رہی ہے۔ بہت سے لوگ جنگلات میں ہونے والے روز مرہ کے تشدد کی شکايت کرتے ہيں۔گوريلا تنظيم کتنی طاقتور ہے، اس کا وہ باہر والوں کے لئے اظہار نہيں کرتی۔ وہ مخالفين کو خوفزدہ کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ قديم باشندوں کو پوليس کے انتقام کا خطرہ ہے کيونکہ اُن پر ماؤ باغيوں کو مدد دينے کا الزام لگايا جاتا ہے۔ جنگل کی جنگ بے دردانہ ہے۔

Pakistan Präsident Asif Ali Zardari
پاکستانی صدر آصف زرداریتصویر: AP

پاکستان اور افغانستان ميں بحرانی مراکز کے سايوں ميں علاقے کا ايک اور ملک غير يقينی حالات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اخبار Frnkfurter Allgemeine Zeitung تحريرکرتا ہے کہ سری لنکا کوحکمران راجا پاکسے خاندان مسلسل زيادہ غير جمہوری بنا رہا ہے۔ راجاپاکسے کے دور حکومت ميں ساڑھے چار سال کے اندر سری لنکا کا جمہوری نظام انتخابات کے علاوہ جمہوری طور پرکھوکھلا ہو چکا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا حق صرف کاغذی حد تک ہے۔ پچھلے دوبرسوں ميں، خانہ جنگی کی زد ميں آئے ہوئے علاقے سے باہر دو ہزار افراد غائب ہو چکے ہيں۔ تامل ٹائيگرز پر فتح نے ابھی تک قانون اور حقوق کی بحالی کی راہ ہموار نہيں کی ہے۔ اس کے برعکس، حاليہ جيت کے بعد يہ خدشہ ہے کہ راجاپاکسے کا خاندان اپنی حکمرانی اور ظلم و جبرکے نظام کو اور بھی زيادہ طاقتور بنائے گا۔

Präsident Mahinda Rajapaksa
سری لنکا کے صدر راجا پاکسےتصویر: AP

اخبار مزيد لکھتا ہے کہ سری لنکا جسے يورپی اُس کے موسم اور قدرتی مناظر کی وجہ سے چھٹياں گذارنے کے لئے بہت پسند کرتے ہيں، مغرب سے منہ موڑ کر ليبيا، ايران، چين اور پاکستان جيسے ممالک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ، اپنے سابقہ ساتھيوں کوحيرانی کے علم ميں چھوڑ کر نئے روابط پيداکررہا ہے۔ چينی سرمائے کی مدد سے سری لنکا کے جنوب ميں ايک بندرگاہ تعمير کی جارہی ہے، جس کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ وہ جنوبی ايشيا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہوگی۔ قياس آرائياں ہیں کہ چين اپنی فياضی کے بدلے ميں ايک دن وہاں بحری اڈے قائم کرنا چاہے گا۔ اس وجہ سے سری لنکا کے بڑے ہمسايہ ملک بھارت کو پريشانی لاحق ہے، جو روايتی طور پر بحر ہند کے جہاز رانی کے راستوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس طرح صرف سری لنکا کی اپوزيشن ہی ملک کو ايک ناہموار راستے پر نہيں ديکھتی۔

اخبار Neue Zürcher Zeitung تحرير کرتا ہے کہ پاکستانی فن کاروں کے فن پارے دنيا بھر ميں آرٹ کے نامور مجموعوں اور نيلام گھروں ميں ديکھنے کو ملتے ہيں اور ان کی قيمتيں بھی اچھی خاصی ہيں۔ پچھلے دس برسوں ميں جن پاکستانی آرٹسٹوں کو عالمی شہرت ملی ہے اُن ميں سے تقريباً سب ہی اپنے وطن ہی ميں رہتے اور وہيں کام کرتے ہيں۔ پاکستان ميں 20 سے زائد کمرشل گيلرياں ہيں اور يوں يہ کہا جا سکتا ہے کہ کراچی لاہور اور اسلام آباد ميں آرٹ کا ايک چھوٹا ليکن پر اثر منظر موجود ہے۔ لاہور اورکراچی ميں آرٹ اسکول کاميابی سے قدم جما چکے ہيں۔

پاکستانی آرٹ کے ميدان کی ايک خصوصيت يہ ہے کہ تقريباً تمام معروف فنکار انہی اسکولوں سے وابستہ ہيں۔ ملک کے فنکاروں کی پہلی دو نسلوں نے قوميت اور قومی تشخص کے موضوعات پو خاص توجہ دی تھی ليکن نوجوان آرٹسٹ ان موضوعات ميں کم ہی دلچسپی ليتے ہيں۔ پاکستانی آرٹ پر ايک مخصوص معاشرے کی سماجی حقائق کی چھاپ ہے اور اُس سے جو فعاليت اور تنوع پيدا ہوتا ہے اُس کے دامن ميں بہت سی حيرانگيوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عدنان اسحاق