جرمن شہریت کے لیے جدوجہد
12 فروری 2020جنوری کی آخری جمعرات کو، ازابیل اور فیلکس کوچمین جرمن پارلیمان کے وزیٹرز ہال میں بیٹھے ہوئے یہ سوچ رہے تھے کہ کیا انہیں پچھلے کچھ مہینوں سے ان کی انتھک محنت کا صلہ ملے گا؟ اس سے ایک روز قبل ہی پارلیمنٹ نے ہولوکاسٹ کے متاثرین کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر جرمن پارلیمان یعنی بُنڈسٹاگ کے صدر ولف گانگ شوئبلے نے پارلیمنٹ کے ممبران اور مہمانوں کو جرمنی کی ذمہ داری یاد دلا ئی تھی، جسے جرمنوں کی ہر نسل کو نئے سرے سے باور کرنا ہوگا۔
فیملی کوچمین جرمن پارلیمان کے اس مباحثے میں شرکت کے لیے خاص طور سے لندن سے برلن آئے تھے۔ اس دن کے ایجنڈے میں گیارہویں نمبر پر’’جرمن قومیت کے قانون میں ازالہ یا تلافی‘‘ کا موضوع شامل تھا۔ بنڈسٹاگ یا وفاقی جرمن پارلیمان میں ہونے والی اس بحث کے موضوع کے پیچھے دراصل یہ سوال ہے کہ کیا نازیوں کی طرف سے جن یہودیوں کی جرمن شہریت چھین لی گئی تھی ان کی شہریت کو دوبارہ بحال کرنا چاہیے؟
جرمن آئین کے آرٹیکل 116کے مطابق: ''سابقہ جرمنی کے 30 شہری جن کو 30 جنوری 1933ء سے 8 مئی 1945ء کے درمیان، سیاسی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر ان کی شہریت سے محروم کردیا گیا تھا ان کی اولادیں اپنی جرمن شہریت کی درخواست دیں گی اور انہیں بحال کیا جائے گا۔‘‘
تاہم عملی طور پر، نیچرلائزیشن یا شہریت کے لیے بہت سی درخواستوں کو مسترد کردیا گیا ہے۔ صرف 2017ء اور 2018ء میں ہی آرٹیکل 116 کے تحت تقریبا دس ہزار درخواستیں دی گئیں۔ لیکن اس عرصہ میں صرف 3900 افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
جرمن پارلیمنٹ میں بحث
فیملی کوچمین اور ان کے لابی گروپ ''آرٹیکل 116 استثناء‘‘ چاہتے تھے کہ جرمن پارلیمان اس معاملے ک دیکھے، جس کے بعد جرمنی کی گرین پارٹی کی طرف سے پارلیمان میں بحث کی درخواست کی گئی تھی۔
2018 ء میں قائم کیا گیا یہ گروپ صرف یہودیوں کی نسل نہیں، بلکہ جرمنوں اور ان کی آل اولاد کی شہریت کی بحالی کے لیے کوششیں کرتا ہے۔ ان میں زیادہ ایسے یہودی اور جرمن شامل ہیں جنہوں نے جرمنی کے بنیادی قانون کے آرٹیکل 116 § 2 کے تحت اپنی شہریت کی بحالی کے لیے درخواستیں دی تھیں تاہم انہیں ناکامی ہوئی۔
ازابیل اور فیلکس کوچمین اب ان متاثرہ افراد میں سے 200 سے زیادہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
"شہریت ایک بنیادی حق ہے۔ یہ لوگ اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کو واپس نہیں پا سکتے۔ بیشتر کیسز میں انہیں ان کی جائیداد واپس نہیں مل سکتی، نہ ہی کھوئی ہوئی ملازمتیں انہیں واپس ملیں گی۔‘‘
تاہم فیلکس کوچمین کا کہنا ہے کہ ان کے گروپ کے لوگوں کو ایک چیز واپس مل سکتی ہے، وہ ہے 'جرمنی کی شہریت‘۔ فیلکس کہتے ہیں،''ہمارے لوگوں کو وہ بھی نہیں دی گئے اور اس کی جو وجوہات بتائی گئیں ہیں وہ غیر منصفانہ، غیر قانونی اور بنیادی طور پر غلط معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
'فرمان صرف صوابدیدی راحت ہے'
کئی دہائیوں کے تعطل کے بعد ، لندن میں مقیم وکیل فیلکس کوچمین اور ان کی اہلیہ ایزابیل نے گذشتہ موسم گرما میں جرمنی کی وزارت داخلہ کے منظور کردہ فرمانوں کا خیرمقدم کیا۔ لیکن انہیں اس امر کا ادراک ہے کہ وہ اس کی مدد سے کچھ خاص حاصل نہیں کر پائیں گے۔
"یہ احکام بنیادی طور پر اختیاری سہولت ہیں۔ جرمن حکومت یہ نہیں چاہتی ہے کہ اُسے مسائل کے بارے میں بتایا جائے اور یہ بھی کہ اس کا حل موجود ہے۔ جرمن حکام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ جو کچھ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں مسائل کا احساس نہیں۔ وہ متاثرہ افراد کی ساری زندگی پر نظر نہیں رکھتے۔ وہ ذاتی عنصر کو نہیں دیکھتے۔ وہ صرف سیاہ اور سفید ٹک باکس کی ایکسرسائز دیکھتے ہیں۔ انہیں اس سے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اس بات پر کسی حد تک مطمئن ہونے کے باوجود کہ پارلیمنٹ میں ان کی تجویز کوسرے سے رد نہیں کیا گیا، کوچمین مایوس ہو کر لندن واپس چلے گئے۔
لڑائی جاری رکھنا
ازابیل گروپ 116 میں اراکین کو باضابطہ طور پر شامل کرنے سے پہلے لوگوں کے شکایات کو بغور جانچا جاتا ہے۔ ان کے دفتر میں تاریخی دستاویزات سے بھرے فولڈرز کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ پیدائش کے سرٹیفکیٹ بمعہ سواسٹیکا ، کنڈرٹرانسپورٹ نوٹس، نازی حراستی کیمپوں کی تصاویر- اور شہریت سے انکار کے نوٹس۔
’’کچھ کہانیاں بہت طاقتور ہیں۔ کچھ لوگ اپنا پورا کنبہ کھو چکے ہیں۔ اور جب آپ ان سے بات کر رہے ہوں تو آپ ان کا درد محسوس کرتے ہیں۔ اگر جرمن حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر کچھ ایسے لوگوں کی طرف دیکھتی جن کی درخواستوں کو انہوں نے مسترد کر دیا ہے، تو ان کا دکھ محسوس کرتی اور شاید اُسے احساس ہوتا کہ انہیں انصاف کرنا چاہیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ازابیل رو پڑی۔
کیٹ بریڈی/ ک م/ ش ج