1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن صدر کے غیر معمولی بیانات: ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

4 اکتوبر 2010

کرسٹیان وولف اپنے اُن الفاظ پر قائم رہے جو انہوں نے صدارتی عہدے کی تقریب حلف برداری کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے ادا کئے تھےیعنی یہ کہ وہ اپنے دورِ صدارت کے دوران غیر ملکیوں کے انضمام کے موضوع پر خاص توجہ دیں گے۔

https://p.dw.com/p/PUpJ
تصویر: dapd

اُنہوں نے 3 اکتوبر کو منقسم جرمنی کے دوبارہ متحد ہونے کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنی 30 منٹ کی تقریر میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے تاریخی واقعے اور اس وقت کی ملکی صورتحال سے کہیں زیادہ دیر تک انضمام اور تارکین وطن کے موضوع پر بات کی۔ وولف نے کہا’ محض وہی ملک ایک روشن مسقبل رکھتا ہے،جہاں دیگر ثقافتوں کواپنی ثقافت کا حصہ سمجھنے والی سوچ پائی جاتی ہو‘۔ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ’انضمام‘ کے موضوع کو مرکزی اہمیت دینےکا فیصلہ بہت ضروری اور بروقت تھا۔ کئی ہفتوں سے جرمنی میں تارکین وطن کے انضمام کو جھٹلانے والوں کی طرف سے الفاظ کی جنگ چل رہی ہے۔ آئے دن اس پر بحث ہوتی ہے کہ جرمنی میں آباد تارکین وطن جرمن زبان نہیں سیکھتے نہ ہی بولتے ہیں۔ یہ جرمن آئین کا احترام نہیں کرتے، اور محض حکومتی امداد اور سوشل مراعات پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ جرمن صدر نے اپنی تقریر میں کہا کہ جرمن زبان سیکھنا تمام تارکین وطن پر لازمی ہے اور جرمن قوانین سب پر لاگو ہوتے ہیں۔ جرمن صدر کی تقریر میں مرکزی اہمیت کے حامل وہ بیانات تھے، جو انہوں نے اسلام سے متعلق دئے۔ کرسٹیان وولف نے کہا ’ مسیحیت اور یہودیت تو جرمنی کے ماضی اور حال سے جُڑے ہوئے تھے ہی پر اب اسلام بھی اس معاشرے کا ایک حصہ بن گیا ہے‘۔ یہ ایک غیر معمولی بیان تھا، جو اب تک کسی دوسرے جرمن سیاستدان نے نہیں دیا۔ تاہم جرمن صدر نے مثالی طریقے سے بین الثقافتی معاشرے کے تصور، جوکرسٹیان کے بقول محض غلط فہمیوں سے عبارت ہوتے ہیں،کوکڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

Berlin, Migranten
برلن میں تارکین وطن کے انضمام کے لئے متعدد پیش قدمیوں شروع کی گئی ہیںتصویر: DW

کرسٹیان وولف نےکہا کہ یہ ایک غلط مفروضہ ہے، جس نے تارکین وطن سے متعلق مسائل حل کرنےکے بجائے معاشرے میں ایک غلط تاثر چھوڑا ہے۔ یہ ایک تمانچہ تھا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ملکی عناصرکے چہرے پر۔ جرمن صد رکا یہ بیان کہ’ جرمنی ایک عرصے سے تارکین وطن کا ملک ہے‘۔ یہ وہ امر ہے، جس کے بارے میں جرمن عوام کے قدامت پسند حلقوں میں اب تک آگاہی نہیں پائی جاتی۔

اب تحمل کے ساتھ انتظار کرنا اور دیکھنا یہ ہے کہ جرمنی کی روز مرہ کی سیاست جرمن صدر کی تقریرکے اُن نکات کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، جن میں انہوں نے تارکین وطن سے متعلق پالیسی میں بہتری کے لئے چند تجاویز بھی پیش کی تھیں۔ کس حد تک ان پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ مثلاً کرسٹیان وولف نے تارکین وطن کے پورے گھرانے یا فیملی کے تمام اراکین کوجرمن زبان کی تدریس کی سہولت فراہم کی جانے کی تجویزپیش کی ہے۔ جرمن صدر کا کہنا ہےکہ تارکین وطن گھرانوں کے بچوں کو اگر دن بھر اسکول میں جرمن بولنا بھی پڑے تو وہ گھر جا کر اپنی مادری زبان مثلاً ترکی یا عربی میں ہی بات چیت کرتے ہیں کیونکہ اُن کی ماؤں کو جرمن نہیں آتی۔ جرمن صدر نے مزید کہا کہ جرمن اسکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کا بندوبست ضرور ہونا چاہئے تاہم اور جرمن معلموں کے ذریعے۔

Sprachkurs Berlin Afghanisch
تارکین وطن گھرانوں کے تمام اراکین کو جرمن تدریسی کورس فراہم کیا جائے: جرمن صدرتصویر: DW

کرسٹیان وولف کو جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی بیسویں سالگرہ کے موقع پرخطاب کے ذریعے اپنی صدارتی مدت کے دوران کے اہم ترین موضوع پر بڑی عمدگی سے بیانات دینے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے 1989میں اُس وقت کے مشرقی جرمن باشندوں کے نعرے ’ ہم سب ایک قوم ہیں‘ کی اہمیت کو اجاگرکرتے ہوئےکہا ’ ہرکوئی، جوجرمنی میں رہ رہا ہے، وہ اس معاشرےکا حصہ ہے‘۔

جرمنی کا آئین گرچہ وفاقی جرمن صدر کوکچھ خاص سیاسی طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا تاہم وفاقی جرمن صدر کے پاس لفظوں کی بہت طاقت ہوتی ہے۔

تبصرہ/ فولکر واگنر/ تحریر کشور مصطفیٰ

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں