جرمن صوبے شلیسوِگ ہولسٹائن کے انتخابات، ایس پی ڈی کا امتحان
7 مئی 2017قبل از انتخابات آخری جائزے کے مطابق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ( ایس پی ڈی)، ماحول دہست گرین پارٹی اور جنوبی شلیسوِگ ہولسٹائن کے ووٹرز نامی جماعت ( ایس ایس ڈبلیو) کی مخلوط حکومت اس مرتبہ اپنی اکثریت کھو سکتی ہے۔ اس مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (سی ڈی یو ) کو بتیس فیصد جبکہ ایس پی ڈی کو اکتیس فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ دائیں بازو کی مسلم اور مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی پہلی مرتبہ اس صوبے کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ جماعت بھی چھ فیصد تک ووٹ حاصل کر لے گی۔ خیال رہے کہ صوبائی اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرے۔
صوبے کے وزیر اعلیٰ ٹورسٹن البیج کے مطابق ’’انتہائی سخت مقابلے کی توقع ہے۔‘‘ انتخابی مہم کے دوران تعلیم و تربیت، بنیادی سہولیات اور قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جانے والی توانائی کو وسعت دینے جیسے موضوعات پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی۔ صوبے میں چھبیس سو انتخابی دفاتر قائم کیے گئے ہیں ،جو مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے تک کھلے رہیں گے۔ اس کے فوری بعد غیر حتمی نتائج سامنے آنے لگیں گے۔
اگر اس مرتبہ کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تو مخلوط حکومت کے قیام کے کئی امکانات ہوں گے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ صوبے میں سولہ سالہ شہریوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس طرح اب اس صوبے میں اہل ووٹرز کی تعداد 2.3 ملین ہو گئی ہے۔
2012ء کے انتخابات میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (سی ڈی یو ) کو 30.8 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ ایس پی ڈی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 30.4 فیصد تھا۔ اسی طرح ایف ڈی پی 8.2 فیصد، گرین پارٹی کو 13.2 فیصد ، ڈی لنکے کو 2.3 فیصد اور ایس ایس ڈبلیو کو 4.2 فیصد عوامی تائید حاصل ہوئی تھی۔ 2012ء میں ووٹنگ کا تناسب ساٹھ فیصد رہا تھا۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے بھی یہ انتخابات کسی امتحان سے کم نہیں ہیں۔ اگر اس مرتبہ اسے شکست ہوئی تو یہ اس جماعت کے سربراہ اور چانسلر بننے کے امیداور مارٹن شلس کے لیے یہ دوسرا بڑا دھچکہ ہو گا۔ مارٹن شلس کی جانب سے قیادت سنبھالنے کے بعد سے ایس پی ڈی کی مقبولیت بہت تیزی سے بڑھی تھی، تاہم یہ جماعت رواں برس مارچ میں صوبہ زارلینڈ کے انتخابات حیرت انگیز طور پر سی ڈی یو سے ہار گئی تھی۔