جرمن فلسفی ہابرماس کی 85 ویں سالگرہ
18 جون 2014جرمنی کے فکری اور ادبی حلقوں میں 18 جون 1929ء کو جرمنی کے شہر ڈسلڈورف میں پیدا ہونے والے ہابرماس کی 85 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ ہابرماس جرمنی میں صف اول کے دانشوروں اور مفکرين ميں شمار ہوتے ہیں اور وقتاً فوقتاً جن مختلف موضوعات پر اظہار خيالات کرتے رہتے ہيں، اُن ميں مذہب، جينياتی تکنيک اور نقل مکانی يا ترک وطن کے رجحانات بھی شامل ہيں۔ يہ تمام موضوعات ايک جديد معاشرے کے ليے اہميت رکھتے ہيں۔ ہابر ماس کے مطابق ايک جديد معاشرے ميں پر امن زندگی کے ليے ’تبديلی‘ بہت ضروری ہے۔
يُرگن ہابرماس کی زندگی اُسی قدر متنوع ہے جتنے کہ اُن کے خيالات اور معاشرے پر اُن کے اثرات۔ ہابر ماس نے گوئٹنگن، سوئٹزر لينڈ کے شہر زيورچ اور بون ميں فلسفے، نفسيات، اقتصاديات اور جرمن لسانيات کی تعليم حاصل کی۔ تعليم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے صحافی کی حيثيت سے کام کيا۔ 1956ء ميں انہوں نے فرينکفرٹ ميں سماجی تحقيق کے انسٹيٹيوٹ ميں ريسرچ اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت شروع کی۔
ہابر ماس ايک تنقيدی نظر رکھنے والے فلسفی اور دانشور ہيں اور انہوں نے جرمنی کے ماضی کے بارے ميں عوامی طرز فکر کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔ انہیں بے شمار اعزازات مل چکے ہیں، جن میں اُن کے آبائی شہر کا ہائنے انعام بھی شامل ہے، جس کی جیوری نے انہيں دنيا بھر ميں عصر حاضر کا اہم ترين جرمن مفکر قرار ديا تھا۔
ہابر ماس کے نظريات کو ان کی جوانی کے زمانے ہی سے شہرت ملنا شروع ہو گئی تھی اور دنيا بھر ميں ان کے نظریات بحث و تمحیص کا موضوع بننے لگے تھے۔ ہابر ماس کے نظريات ميں معاشرتی ڈھانچوں کی تبديليوں، فرد کی آزادی اور اُس کے افق ميں اضافے کو خاص اہميت حاصل ہے۔
يُرگن ہابر ماس کا عوامی معاشرتی بحثوں پر بھی گہرا اثر ہے۔ انہوں نے 2003ء ميں عراق پر امريکا کی فوجی چڑھائی پر شديد تنقيد کی تھی اور کہا تھا کہ اقتصاديات معاشرے کو مسلسل زيادہ تقسيم کر رہی ہے۔ وہ معاشرے کا تجزيہ کرتے، جمود پا جانے والے ڈھانچوں کو توڑتے اور مستقبل کے حوالے سے دعوت فکر ديتے ہيں۔ ان کے مطابق ايک معاشرہ بے عيب نہيں بن سکتا ليکن اہم يہ ہے کہ وہ ترقی کرتا رہے اور اچھی تبديلياں آتی رہيں۔
اپنے سماجی نظریات کے لیے بے شمار بین الاقوامی اعزازات حاصل کرنے والے ہابرماس نے ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔ 1955ء میں رشتہ ازدواج میں بندھنے والے ہابرماس تین بچوں کے باپ ہیں۔
سیاسیات، سماجیات اور اقتصادیات کے شعبوں کا ناقدانہ نظر سے جائزہ لینے والے ہابرماس کی فلسفیانہ تحریریں، جن کے تراجم 23 سے زیادہ زبانوں میں ہو چکے ہیں، دنیا بھر میں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی پچاس سے زیادہ کتابوں میں ’دی تھیوری آف کمیونیکیٹو ایکشن‘، ’دی فلاسفیکل ڈسکورس آف ماڈرنیٹی‘ اور ’دی سٹرکچرل ٹرانسفارمیشن آف پبلک سفیئر‘ بھی شامل ہیں۔ اپنے علمی سفر کے دورا ن انہوں نے دنیا بھر میں مختلف ممالک کے دورے بھی کیے۔ ان ممالک میں چین، امریکہ اور ایران خصوصی طور پر شامل ہیں، جہاں دانشوروں اور طالب علموں نے ان کی زبردست پذیرائی کی۔
ساٹھ کے عشرے کے اواخر میں ہابرماس کی تحریروں کے اثرات خاص طور پر اس دور کے طالبعلموں نے قبول کئے۔ لیکن جب ان میں سے طلبا کا ایک گروہ نسلی انتہاپسندی کی طرف مائل ہوا، تو ہابرماس کو یورپ میں ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اس وجہ سے ہابرماس نے طلبا تحریک کے اس انتہاپسند حصے سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
ہابرماس کے نظریات میں ایک اور اہم تذکرہ "عوامی دائرہ" یا پبلک سفیئر کا ہے۔"عوامی دائرے" کی اصطلاح سے ان کی مراد دنیا بھر کے ممالک کے عوام کا اپنی حکومتوں اور ان کی پالیسی پر عقلی حوالوں سے بحث و مباحثہ کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ریاست اپنے فرائض درست طور سے انجام نہیں دے رہی ہیے اور عوامی شعور کی صحیح طریقے سے نمائندگی نہیں کر رہی ہے، تو عوامی دائرے میں رہتے ہوئے ریاست کے غلط یا غیر عوامی اقدامات پر بحث ہونی چاہئے اور پھر عوام کو ایک مشترکہ موقف پر اکٹھا ہونا چاہئے، تاکہ سماجی و ریاستی ترقی اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے مشترکہ عوامی شعور کو بیدار کیا جا سکے۔
ہابرماس کا یہ نظریہ کہ عالمگیریت کے اس دور میں قومی حکومتوں کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے، دنیا بھر کے فکری حلقوں میں بحث کا موضوع رہا ہے۔ ان کے نظریات میں اس امر کو ہمیشہ مرکزی اہمیت حاصل رہتی ہے کہ جمہوریت کو مستحکم بنیادیں فراہم کی جانی چاہییں۔ ہابرماس جرمنی کی مختلف یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ مہمان پروفیسر کے طور پر امریکا اور فرانس کی یونیورسٹیوں سے بھی وابستہ رہے ہیں۔