1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فوج کی مدد کرنے والے افغانوں کے لیے خوش خبری

19 جون 2021

نیٹو کا افغان مشن ختم ہونے کے قریب ہے، جرمنی نے ابتدا میں صرف ان افغانوں کو پناہ دینے کا منصوبہ بنایا تھا جو گزشتہ دو برس سے جرمن فوج کی مدد کررہے تھے۔ تاہم اب سن 2013 سے مدد کرنے والے افغان بھی اس میں شامل کیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/3vCn0
Innenministerkonferenz in Rust | Horst Seehofer
تصویر: Philipp von Ditfurth/dpa/picture alliance

جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مدنظر اب ان افغان شہریوں کو بھی جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کا حق دیا جا رہا ہے جنہوں نے اس جنگ زدہ ملک میں تعینات جرمن فوج کی سن 2013 سے مدد کی تھی۔

زیہوفر نے جمعہ 18 جون کو بتایا، ”دو برس کی ڈیڈ لائن ختم کردی گئی ہے۔" وہ برلن کے اس سابقہ موقف کا ذکر کر رہے تھے جس کے مطابق صرف ان افغانوں کو جرمنی میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی جو گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمن فو ج کی مدد کرتے رہے تھے۔ ان میں سے بیشتر افغان مترجم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

جرمن وزیرداخلہ نے یہ اعلان جرمنی کی سولہ علاقائی ریاستوں کے وزرائے داخلہ کی دو روزہ مشترکہ کانفرنس کے اختتام پر کیا۔ جرمن ریاست لوئر سیکسنی کے وزیر داخلہ بورس پسٹوریئس نے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔

پسٹوریئس کا کہنا تھا، ”یہ اچھی بات ہے کہ برلن ان سابق افغان مددگاروں کی درخواست پر بھی غور کرے گا جنہوں نے دوبرس سے زیادہ عرصے قبل بھی جرمن فوج اور جرمن پولیس کی مدد کی تھی اور اب انہیں طالبان کی طرف سے انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔"

پسٹوریئس نے برلن کی وفاقی حکومت سے افغانوں کے سفری اخراجات بھی برداشت کرنے کی اپیل کی۔

Afghanische Bundeswehrangestellte Todesangst vor Abzug
تصویر: Getty Images

جرمن وزارت دفاع کے مطابق گزشتہ اپریل تک تقریباً تین سو افغان مترجم کے طور پر اور دیگر کاموں میں 1300 جرمن فوج کی مدد کررہے ہیں۔

جرمن میگزین ڈیر اسپیگل نے جمعہ 18 جون کو دعویٰ کیا ہے کہ 400 افغان مددگاروں، ان کی بیویوں اوربچوں سمیت مزید 1500 افراد اب جرمنی منتقل ہونے کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوجائیں گے۔

زیہوفر نے علاقائی وزرائے داخلہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں کے حوالے سے فیصلے پر نظرثانی نہایت مناسب ہے۔

انہوں نے کہا کہ برلن کا اب تک موقف تھا کہ جن افغانوں نے پانچ یا چھ برس قبل جرمن فوج کی مدد کی تھی انہیں افغانستان میں کسی طرح کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔

سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے پسٹوریئس نے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے کہا، ”جن افغانوں نے ہماری پولیس مشن کے دوران بنڈس ویئر کی مدد کی تھی وہ خاص طور پر طالبان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔"

Deutsche Soldaten in Afghanistan
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

افغانستان میں دو عشروں تک جرمن فوج کی موجودگی

جرمنی نے سن 2001 میں نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پرالقاعدہ کے حملوں کے چند ماہ بعد ہی امریکا کی قیادت والے آئی ایس اے ایف مشن کے تحت پہلی مرتبہ اپنی فورسیز افغانستان بھیجی تھیں۔ بعد میں نیٹو کی قیادت والے ریزولیوٹ سپورٹ مشن نے اس بین الاقوامی مشن کی جگہ لے لی۔

افغانستان میں دو دہائیوں تک اپنی موجودگی کے دوران جرمنی کے 59 فوجیوں کو اپنی جان گنوانا پڑی۔ ان میں سے 35 پرتشدد کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوئے۔

یکم مئی کو امریکی قیادت والے نیٹو فورسز کے مشن نے افغانستان سے حتمی واپسی کا آغاز کردیا ہے اور ستمبر تک تمام غیر ملکی فوجیوں کا انخلاء مکمل ہوجائے گا۔

ج ا / ا ب ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں