1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخیورپ

جرمن قبائل کی جنگیں اور تاریخ نویسی کے رجحانات

31 مئی 2021

جرمنی کی تاریخ نویسی میں تبدیلی آتی رہی کیونکہ جرمنی سیاسی اور جغرافیائی طور پر تبدیل ہو رہا تھا۔ ابتداء میں یہ تقریباً تین سو چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم تھا۔

https://p.dw.com/p/3uD9i
Deutschland Brandenburg Neues Palais Potsdam
تصویر: picture-alliance/akg-images

سن 1806ء میں جب نپولین نے جرمنی کو فتح کیا تو اس نے تعداد گھٹا کر کم کر دی تھی۔ سن 1870ء میں اوٹو فان بسمارک نے فرانس کو شکست دے کر جرمنی کو متحد کیا مگر اس میں آسٹریا کو شامل نہیں کیا۔ ان سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے جرمنوں کی تاریخ نویسی بھی متاثر ہوئی۔ جرمنی بھی دوسرے یورپی ملکوں کی طرح ریناساں سے متاثر ہوا اور اس کے مورخوں نے یونانی اور رومی تہذیبوں پر تحقیق کی۔ جرمن اب تک اپنے سکول سسٹم کو یونان کی تقلید کرتے ہوئے 'جمنازیم‘ کہتے ہیں۔ جرمن تاریخ دان کرسٹیان ماتھیاس تھیوڈور مومزین نے ایک اعلیٰ تحقیقی کتاب لکھی لیکن پھر انیسویں صدی میں جب جرمنی میں نسل پرستی کا ابھار ہوا تو یونان اور روم کے ماڈل سے ہٹ کر اپنی قومی تاریخ کی جڑیں تلاش کی گئیں اور اپنی قومی بنیادوں کی تشکیل کی گئی۔

کیونکہ جرمن قبائل اور رومیوں کے درمیان بڑی خونریز جنگیں ہو چکی تھیں، اس لئے اس نے خصوصیت کے ساتھ ان جنگوں کا تفصیل سے ذکر کیا  ہے، جس میں ٹینٹونبرگ کی جنگ بھی شامل ہے، جو سن نو عیسویں میں لڑی گئی۔ اس میں جرمنوں نے پوری رومن لیجن کا صفایا کر دیا تھا، جب رومی شہنشاہ کو یہ خبر ملی تو وہ دیوار پر سر مار مار کر کہتا تھا کہ میری لیجن واپس کرو۔

رومی مورخ ٹاسیٹوس نے جرمنوں کی بہادری، ان کے کردار، ان کے کلچر اور ان کی عادات و رسومات سے متاثر ہو کر 'جرمینیا‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ جرمنوں کے بارے میں اس نے لکھا کہ یہ بہادر اور نڈر لوگ ہیں، نسلاً خالص قوم سے ہیں اور ان میں کسی دوسری قوم کی ملاوٹ نہیں۔ رسوماتی طور پر یہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے پشین گوئی کے لیے کسی علامت کا سہارا لیتے تھے۔ نجی اور پبلک دونوں صورتوں میں مسلح رہتے تھے۔ جنگ کے دنوں میں زیادہ متحرک ہوتے تھے اور امن کے دنوں کو سو کر اور آرام کر کے گزارتے تھے۔

 اپنے گھر کی حفاظت کرتے، اپنے مال اسباب کی حفاظت کرتے اور گھر کے بچوں اور عورتوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ تحفوں کو لیتے اور دیتے تھے، چاہے یہ تحفے کسی ریاست کی طرف سے ہوتے تھے یا کوئی فرد انہیں دیتا اور زیادہ تر یہ تحفے قیمتی گھوڑوں، اسلحہ اور گھوڑوں کے سازوسامان پر مشتمل ہوتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نقد رقم بھی لے لیتے تھے۔

Mubarak Ali
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

مکانات کچے بناتے اور ان کے اردگرد جگہ چھوڑ دیتے تھے تا کہ کسی حادثے کی صورت میں جانی اور مالی نقصان سے بچا جا سکے اور بالآخر انہیں جرمن قبائل کے ہاتھوں رومی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔ جرمن مفکرین اور فلسفی جرمنوں کی ذہنی گہرائی کو ’بلیک فارسٹ‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق جنگل کی گہری خاموشی اور سایہ دار درختوں نے ان کے کردار کو پختہ کیا ہے۔ جرمنی کا مشہور فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، جو فرائیڈ برگ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے مگر ان کی رہائش بلیک فورسٹ کی ایک کٹیا میں تھی۔

جرمن نسل کی بنیاد

انیسویں صدی میں جرمنی میں دو اہم نظریات ابھرے۔ ان میں سے ایک آریا نسل کا تھا، جسے جرمنوں نے اپنی نسل کی بنیاد بنایا اور دوسرا علم لسانیات کی ابتدا، ان دونوں نظریات نے جرمنی کی تاریخ نویسی میں اہم کردار ادا کیا۔ قومی تاریخ کے ساتھ ساتھ جرمن مورخوں نے تین اہم کلاسیکل تہذیبوں پر تحقیق کی۔ یہ چینی، ہندوستانی اور اسلامی تھیں۔ ہندوستانی تہذیب سے وہ اس وقت متاثر تھے، جب علم لسانیات کے ماہرین نے انڈو یورپین زبانوں کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا۔

جرمن دانشور اور محققین نے سنسکرت زبان سیکھ کر ہندوستان کی آریا نسل سے اپنا تعلق جوڑا اور سنسکرت کے بڑے عالم پیدا کیے، جن میں خاص طور سے میکس میولر قابل ذکر  ہیں، جو ویدوں کے سب سے بڑے عالم تھے۔ جرمنی کی تقریباً تمام بڑی جامعیات میں انڈولوجی کے شعبے قائم ہیں۔ وہاں سنسکرت کے علاوہ ہندوستان کی دوسری کلاسیکل زبانیں بھی سیکھائی جاتی ہیں۔ کلاسیکل اسلامی تہذیب میں بھی جرمنی کے عالموں کی دلچسپی رہی۔ انہوں نے عربی، فارسی اور ترکی زبانوں کے ساتھ ساتھ آرامی زبان بھی سیکھی۔ جرمن  ماہرین نے اسلامی تاریخ، فلسفے اور سائنس کے علوم پر مخطوطات جمع کئے اور ان کو ایڈٹ کر کے شائع کرایا۔ موجودہ دور میں بھی جرمنی کی تمام جامعیات میں اسلامی تاریخ و علوم کے شعبے ہیں۔ اگرچہ ان سیکولرز کی ایک بڑی تعداد ہے لیکن ان میں سے چند جو بہت مشہور ہیں، ان میں ایگناز گولڈزیہر، تھیوڈور نولڈکے، اوسوال سپہولر اور ہیریبرٹ بوسے شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عربی کے بعد جرمن زبان میں سب سے زیادہ اسلام پر کتابیں ہیں۔ اسی طرح کلاسیکل چینی تاریخ پر بھی اہم یونیورسٹیز میں شعبے قائم ہیں۔

اگرچہ جرمن نسل کے اعتبار سے اپنے آپ کو دوسری یورپین اقوام سے برتر سمجھتے تھے لیکن جب آرتھر ڈے گوبینو کی کتاب 'دا اِنکوائلٹی آف ہیومن ریس‘ شائع ہوئی تو اس میں آریا نسل کو برتر نسل قرار دیا گیا بلکہ ماسٹر ریس قرار دیا گیا۔ جرمن مفکروں اور دانشوروں نے جرمن آریا نسل کی پاکیزگی اور خالص نسل ہونے کے سلسلے میں خاص طور سے یہودیوں کو نشانہ بنایا کہ ان کی وجہ سے جرمن نسل آلودہ ہو گئی ہے۔ اس لئے یہودیوں کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور ان سے تمام سماجی اور سیاسی رشتے ختم کئے گئے۔ ’اوئےگنیک‘ کا استعمال بھی ہوا، جس کے تحت دماغی یا جسمانی طور پر کمزور بچوں کو ختم کر دیا جاتا تھا تاکہ صرف صحت مند بچوں کا وجود رہے۔ جب ہٹلر کی نازی پارٹی 1933ء میں اقتدار میں آئی تو یہودیوں اور خانہ بدوشوں کے خلاف مہم کا آغاز ہوا۔ نازی حکومت نے مشرقی یورپ اور روس کو اپنی کالونیز بنانے کا منصوبہ بنایا اور یہی وہ منصوبے تھے، جن کی وجہ سے دوسری عالمی جنگ ہوئی۔

جنگ کے بعد جرمنی کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ اس کی سیاسی، سماجی اور سیاسی حیثیت بھی زوال پذیر ہوئی۔ لہٰذا جنگ کے بعد جو تاریخ لکھی گئی ہے، اس میں قوم پرستی کا جذبہ شامل نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اب جرمن مورخ روزمرہ کی عوامی تاریخ پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس کا تعلق عام لوگوں کی زندگی سے ہے۔ اس بات کی بھی کوشش ہوئی ہے کہ نازی حکومت کے دور میں جو جرائم کیے گئے تھے، ان سے بھی کسی نہ کسی شکل میں چھٹکارا پایا جائے اور نئی لکھی جانے والی تاریخ میں جرمن قوم کو تازہ تاریخی شعور اور آگاہی دی جائے۔