جرمن مسلم نوجوانوں میں بنیاد پرستانہ رجحان سرائیت کرتا ہوا
25 دسمبر 2016جرمنی کی داخلی سلامتی کے ادارے کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن نے اس خطرے کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی سمیت یورپ میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ انتہا پسندانہ عقائد کو پسند کرنے والے مسلم نوجوانوں میں یہ ذیلی کلچر کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ان کے مطابق اس میں مذہب تبدیل کرنے والوں کے ساتھ ساتھ وہ خواتین بھی شامل ہیں جوبھرتی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ماسن نے اس منابست سے کہا کہ ایسے انتہا پسندانہ نوجوانوں میں ’فور ایمز‘ اہم ہے۔ ان سے مراد مرد(Male)، مسلم (Muslim)، مہاجر (Migrant) اور مہم جوئی میں ناکامی (Misadventure) ہے۔ ان کے مطابق برلن حملہ آور انیس عامر اِس ’فور ایمز‘ فارمولے پر پورا اترتا ہے۔
جرمنی میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے فروغ اور اُس کے نظریات کی افزائش میں احمد عبدالعزیزعبداللہ المعروف ابو والع پیش پیش ہے۔ اس مبلغ کو رواں برس نومبر میں جرمن شہر ہلڈزہائیم سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس شمالی جرمن شہر کو اِس بنیاد پرست مبلغ نے اپنا گڑھ بنا رکھا تھا۔ اپنے عقائد و نظریات کے لیے اُس کی کئی ویڈیوز عام کی جا چکی ہیں۔
جرمن سکیورٹی ذرائع کے مطابق سن2011 میں بنیاد پرست مسلمانوں کی تعداد 38 سو تھی جو اب پانچ سالوں میں بڑھ کر نو ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں 550 ایسے ہیں ، جو انتہا پسند پرتشدد کارروائیاں انجام دینے کی مہارت رکھتے ہیں۔ رواں برس کئی نوجوانوں کو پرتشدد حملوں میں ملوث ہونے کے جرائم میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔
لندن کے کنگز کالج کے سینٹر برائے مطالعہٴ بنیاد پرستی کے سربراہ پیٹر نوئے مین کا خیال ہے کہ مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے خاندانوں کے نوجوان چھوٹے بڑے جرائم تو کرتے تھے لیکن اُن کی اِس عادت کو جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ داعش نے ان نوجوانوں کو جدید ہتھیاروں کا لالچ دے کر اپنا ساتھ شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ نوئے مین کے مطابق داعش نے مغربی ثقافت کے خلاف ردعمل اور اجتجاجی نظریے کو بھی استعمال کر کے ایسے نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کیا۔
برطانیہ میں ایک سکھ گوردوارے پر حملے میں ملوث ایک نوجوان کا تعلق ترک خاندان سے ہے۔ اس نوجوان کی والدہ نریمان یاما نے ایک کتاب تحریر کی، جس کا عنوان ’میرا سلفی بیٹا‘ یا انگریزی میں My Son, the Salafist ہے۔ اس کتاب میں بھی خاتون نے واضح کیا کہ اُس کے بیٹے یوسف نے چودہ برس کی عمر میں عربی مبلغین کی ویڈیوز دیکھنا شروع کر دی تھیں۔ یاما نے اپنے بیٹے کے لیے مسجدوں، پولیس، سکیورٹی حلقوں اور انسداد بنیاد پرستی کے پروگراموں کا بھی سہارا بھی لیا لیکن سب ناکام رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے بیٹوں کے والدین بظاہر کمزور ہیں کیونکہ دوسری جانب کا پراپیگنڈا بہت توانا ہے۔