1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن میوزیم برائے تاریخ، مہاجرت کی چھ دہائیوں کی کہانی

عاطف توقیر20 مئی 2016

جرمنی کے قومی میوزیم برائے تاریخ ميں گزشتہ چھ دہائیوں سے جرمنی آنے والے مہاجرین کے حوالے سے ایک نمائش کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس نمائش ميں جنوبی یورپی ’مہمان ملازمین‘ سے لے کر مہاجرین کے موجودہ بحران تک موضوعات شامل ہيں۔

https://p.dw.com/p/1Irxo
Europäische Kulturhauptstadt Mons 2015 - Ausstellung "Atopolis"
تصویر: DW/B. Riegert

اس نمائش میں دوسری عالمی جنگ کے بعد جنوبی یورپی ملکوں سے گیسٹ ورکرز کی جرمنی آمد کے تصویری اظہاریوں کے ساتھ اس وقت یورپ کو درپیش مہاجرین کے ایک بہت بڑے بحران کی عکاسی کی گئی ہے۔ مہاجرين کے نئے بحران میں جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کا تعلق عرب ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے متعدد دیگر خطوں سے ہے۔

دارالحکومت برلن میں ہونے والی اس نمائش کا موضوع ’کثیرالثقافت: جرمنی، مہاجرت کا ملک‘ رکھا گیا ہے۔ یہ نمائش اس موضوع پر جرمنی میں عموماﹰ دہری رائے اور بدلتے رویوں کی عکاسی کر رہی ہے۔

ہفتے اکيس مئی کے روز اس نمائش کا آغاز ہونے جا رہا ہے، جس میں سن 1955 میں اس وقت کے مغربی جرمنی میں اقتصادی تعمیرِ نو میں حصہ لینے کے لیے بلائے جانے والے غیر ملکی مزدوروں کا حال بیان کیا گیا ہے، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں شام اور عراق سے ہجرت کر کے جرمنی آنے والے لاکھوں مہاجرین کا بھی تفصیلی خاکہ کھینچا گیا ہے۔

Deutschland Türkischer Gastarbeiter 1966
عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں بہت سے گیسٹ ورکرز آئے تھےتصویر: picture-alliance/Beynelmilel

دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن تاریخ سے متعلق بون میں واقع میوزیم کے سربراہ ہانز ہیوٹر کے مطابق اس نمائش کے ذريعے يہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جرمنی کس طرح سے مہاجرین پر انحصار کرنے والا ملک ہے۔ ’’ایک طویل عرصے تک سیاسی رہنماؤں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا یا شاید وہ اس بارے میں کچھ بھی جاننا نہیں چاہتے تھے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین جرمنی پہنچے، جن میں ايک بڑی تعداد شامی اور عراقی باشندوں کی تھی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے گزشتہ برس اگست میں یورپی سرحدی ضوابط کو معطل کرتے ہوئے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ تب جرمن عوام میں مہاجرین سے متعلق خاصی ہم دردی کے جذبات دیکھے جا رہے تھے تاہم اس ہم دردی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاصی کمی بھی دیکھی گئی ہے۔