جرمن وزیر خزانہ پر اپوزیشن کی برہمی
21 اگست 2013وزیر خزانہ کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب انتخابات محض پانچ ہفتوں کے فاصلے پر ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران ان کے اس بیان کو سنگین غلطی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کی وجہ سے بیل آؤٹ پیکیجز میں جرمنی کا حصہ بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ بات اس کے ٹیکس دہندگان کو پسند نہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چانسلر انگیلا میرکل پوری انتخابی مہم میں یونان کے قرضوں کے بحران پر بات کرنے سے گریز کرتی آئی ہیں جس کا مقصد ووٹروں کے غصے سے بچنا ہے۔
منگل کو شوئبلے کا بیان سامنے آنے سے پہلے ایک جرمن اخبار میں میرکل کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ یونان کے دوسرے امدادی پیکیج کی مدت ختم ہونے سے قبل اضافی مدد کی بات کرنا بے کار ہے۔
تاہم میرکل کے اس بیان کو عام ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک انتخابی جلسے کے دوران شوئبلے نے یونان کے لیے اضافی بیل آؤٹ کو یقینی قرار دے دیا۔ تجزیہ کاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگرچہ محدود لیکن یونان کو مزید امداد کی ضرورت پڑے گی۔ قبل ازیں اسے حاصل ہونے والے بیل آؤٹ پیکیجز کا حجم 240 بلین یورو رہا ہے۔
اپوزیشن نے اس بیان پر شوئبلے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ آئندہ ماہ کے انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے لیے میرکل کے حریف اور سوشل ڈیموکریٹ (ایس پی ڈی) امیدوار پیئر شٹائن بروک نے کہا: ’’میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ یورپ کے تحفظ اور اس براعظم کو متحد رکھنے کی ایک قیمت چکانی پڑے گی، جرمن عوام کو بھی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ محترمہ میرکل عوام کو سچ سے آگاہ کریں۔‘‘
گرین پارٹی کے رہنما یوئرگین ٹریٹین کا کہنا ہے کہ شوئبلے نے میرکل کا ’دھوکہ‘ واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے یونان میں کفایت شعاری کی پالیسیوں کی وکالت پر چانسلر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
روئٹرز کے مطابق آئندہ ماہ کے انتخابات میں میرکل کی کامیابی کا امکان ہے جس کے نتیجے میں وہ تیسری مدت کے لیے چانسلر بن جائیں گی۔ اس ممکنہ کامیابی کی ایک وجہ یہ ہو گی کہ ووٹروں نے بیل آؤٹ حاصل کرنے والے ملکوں کے حوالے سے ان کے سخت مؤقف کو سراہا ہے۔