جرمن ٹیکس چوروں کی معلومات برائے فروخت
2 فروری 2010سوئٹزرلينڈ کے ايک بينک سے 1500 خوشحال جرمنوں کے اکاؤنٹس کے بارے ميں معلومات چرا کر اُنہيں جرمن حکومت کو فروخت کرنے کی پيشکش کی گئی ہے۔ گمان کيا جاتا ہے کہ يا تو يہ رقوم ناجائز طور پر حاصل کر کے سوئس بينکوں ميں جمع کرائی گئی ہيں اور يا پھر اُن پر سود سے ہونے والی آمدنی کو جرمن حکام سے چھپايا گيا ہے۔ جرمنی ميں اس وقت يہ بحث جاری ہے کہ کيا حکومت کو ان معلومات کے مالک چور سے انہيں خريدنا چاہئيے جس سے وزارت ماليات کو کئی سو ملين کی رقم حاصل ہوسکتی ہے يا اسے چوری سے حاصل ہونے والی ان معلومات کو نہيں خريدنا چاہئيے۔ تاہم چانسلر نے کہا ہے کہ اگر واقعی ٹیکس چوری کی گئی ہے تو اس بارے میں تمام معلومات حاصل کی جانی چاہیں۔
يہ ايک طے شدہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سوئس بينک کے خوشحال جرمن اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے ميں جن معلومات کو فروخت کرنے کی پيشکش جرمن حکومت کو کی جارہی ہے وہ غير قانونی طور پر جمع کی گئی ہيں،يعنی سادہ الفاظ ميں چرائی گئی ہيں۔ اس طرح متعلقہ صوبائی وزرائے خزانہ اور وفاقی جرمن وزير خزانہ ايک معمے سے دوچار ہيں۔ کيا وہ ڈھائی ملين يورو ميں ايسی چرائی ہوئی معلومات خريديں جن کی مدد سے تقريباً 1500 دولتمند جرمنوں سے تقريباً 200 ملين يورو ٹيکس وصول کيا جاسکتا ہے ؟ يہ ايک نفع بخش سودا ہوگا۔ يا پھر يہ کہ وہ چرائی گئٍ معلومات کو نہ خريديں اور اس طرح ٹيکس کا غبن کرنے والے دولتمندوں کو چھوٹ ديں۔ جرمنی کے موجودہ وزير ماليات وولفگانگ شو ئبلے کے پيش رو سابق وزير ماليات اشٹائن بروک نے ايسی ہی ايک پيشکش کے بعد چرائی ہوئی معلومات کو پانچ ملين يورو ميں خريدا تھا جس کے نتيجے ميں اُن کی وزارت نے ٹيکس غبن کرنے والوں سے 140ملين يورو وصول کئے تھے۔ اس کارروائی کا مقصد اس طرح چھپا کر بيرونی ممالک میں رقوم جمع کرانے والوں کو خوف بھی دلانا تھا۔ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ يہ خوف پيسہ بيرون ملک منتقل کرنے والوں کو متاثر نہيں کرسکا۔ جرمنوں کا خاصا بڑا سرمايہ اب بھی باہر کے بينکوں ميں جمع ہے جو کوئی قابل اعتراض بات نہيں۔اعتراض کی بات صرف يہ ہے کہ اس سے ہونے والی سودی آمدنی پر ٹيکس جرمنی کے سرکاری خزانے ميں جمع نہيں کرايا جاتا بلکہ اکثر ان رقوم کو اس لئے باہر منتقل کيا جاتا ہے تاکہ ان پر ٹيکس نہ ادا کرنا پڑے اور يہ ٹيکس کا غبن ہے۔ يہ نا انصافی ہوگی کہ عام لوگوں سے تو پورا ٹيکس وصول کيا جائے اور دولتمندوں کے ٹيکس غبن پر اُن سے رعايت کی جائے۔
امريکی حکومت نے سوئٹزرلينڈ کے ايک بڑے بينک يو بی ايس کو دھمکی دی تھی کہ اگر اُس نے امير امريکيوں کے سوئس اکاؤنٹس کے بارے ميں معلومات فراہم نہيں کيں تو امريکہ ميں اس بينک کا کاروباری لائسنس ضبط کر ليا جائے گا۔امريکہ کی يہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی ۔ اس لئے جرمنی بھی سوئس بينک پر اسی قسم کا دباؤ ڈال سکتا ہے۔
سوئس صدر نے ايک بيان ميں کہا ہے کہ کہ ايک آئينی رياست کو غير قانونی طور پر حاصل کی جانے والی معلومات استعمال نہیں کرنا چاہئيں۔ سوئس وزير دفاع کا کہنا ہے کہ جرمنی پر اُن کے اعتماد کو ٹھيس لگی ہے کہ وہ چوری کی جانے والی معلومات کو خريدنے پر غور کررہا ہے۔ تاہم حقيقت يہ ہے کہ سوئس بينکوں کے کاروباری طريقوں سے سوئس آئينی رياست پر اعتماد کو ٹھيس پہنچی ہے کيونکہ اُن کے بعض طريقے جرم کہلائے جاسکتے ہيں۔
خود جرمنی کے اندر بھی کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ سوئس بينک کے جرمن اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے ميں معلومات چرائی گئی ہيں اور ايک چور جرمن حکومت کو يہ معلومات فروخت کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے جرمن ریاست کو چوروں سے ملی بھگت نہیں کرنی چاہیے۔
رپورٹ : شہاب احمد صدیقی
ادارت : کشور مُصطفیٰ