1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تجارتی بنیادوں پر ’قتل رحم‘ جرم ہے، جرمن پارلیمان

عاطف توقیر6 نومبر 2015

جرمن پارلیمان نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت طبی وجوہات پر موت کے لیے معاونت فراہم کرنے والے افراد اور تنظیموں کو ایسی سرگرمیوں سے روک دیا گیا ہے اور اس عمل کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H1LY
Palliativmedizin
تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن پارلیمان نے اس سے قبل ایسے تمام قانونی مسودے مسترد کر دیے تھے، جن کے تحت قتل رحم کو قانونی تحفظ فراہم کیا جانا تھا۔ جمعے کے روز منظور کردہ قانون میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی بنا پر تجارتی بنیادوں پر یا سرمایے کے عوض موت میں معاونت فراہم کرنا ایک قابل تعزیر جرم ہے۔

اس نئے قانون کے تحت اپنی زندگی لینے کے خواہش مند افراد اور خودکشی میں معاونت کرنے والی تنظیموں کومجرم قرار دیا گیا ہے۔ نئے مسودہ قانون میں ایسے اقدامات میں ملوث افراد کے لیے تین برس تک کی قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر پہلی تفصیلی قانون سازی کے باوجود یہ واضح نہیں کہ آیا یہ تمام معاملات میں جرم ہو گا، یا کچھ معاملات میں قتل رحم کو قابل قبول بھی قرار دیا گیا ہے۔

Sterbehilfe Belgien Euthanasie
متعدد یورپی ممالک میں آسان موت کے لیے معاونت فراہم کی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن سیاسی جماعت گرین پارٹی سے وابستہ قانون ساز ریناٹے کیوناسٹ نے کہا، ’’تجارتی بنیادوں پر قتل رحم سے ڈاکٹروں کو سخت تشویش کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ کیوناسٹ نے بھی قتل رحم کے حق میں قانون سازی کے لیے ایک مسودہ قانون جمع کرایا تھا۔

یہ بات اہم ہے کہ شدید اور طویل بیماری اور تباہ کن صحت کے حامل افراد کی طبی معاونت ختم کرنا، جرمنی میں عمومی طور پر قابل قبول عمل رہا ہے، جب کہ کچھ معاملات میں شدید ترین بیمار مریضوں کو ایسی دوائیں بھی دی جاتی ہیں، جن سے ان کی موت آسان ہو جائے۔ اس سلسلے میں متعدد کلبز بھی موجود ہیں، جو اپنے ارکان سے اس سلسلے میں فیس بھی وصول کرتے ہیں۔

جرمنی میں قتل رحم میں معاونت فراہم کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ’شٹیرب ہِلفے ڈوئچلنڈ‘ نے کہا ہے کہ وہ جرمنی میں اپنی تمام سرگرمیاں فی الحال روک رہی ہے اور اس سلسلے میں وہ جرمن آئینی عدالت میں رجوع کر رہی ہے۔ یہ تنظیم سوئٹزرلینڈ میں بھی قتل رحم میں معاونت فراہم کرتی ہے۔

اس تنظیم کی جرمن شاخ کی سربراہ میری کلائرے شٹیلمان نے کہا، ’’یہ افسوس ناک بات ہیں، کیوں کہ اس سے بہت سے افراد اور ان کے خاندانوں کو تکلیف ہو گی، جن کے سامنے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘‘