جرمن چانسلر میرکل نے برطانیہ کی بریگزٹ تجاویز رد کر دیں
25 ستمبر 2018وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مطابق یہ بات طے ہے کہ برطانیہ اگلے برس اکتیس مارچ تک یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ تاہم اب تک اس سلسلے میں کسی باقاعدہ برطانوی یورپی معاہدے کے حوالے سے لندن حکومت کی طرف سے جو تجاویز پیش کی گئی ہیں، وہ قابل قبول نہیں ہیں۔
انگیلا میرکل کے مطابق یونین سے اپنے اخراج یا بریگزٹ کے بعد بھی اگر لندن حکومت چاہتی ہے کہ برطانیہ یورپی مشترکہ منڈی کا حصہ رہے، تو لندن کی یہ تجویز یونین کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ وہ یورپی سنگل مارکیٹ کے مخصوص حصوں میں شامل رہنے کے لیے محض اپنے ہی مفادات کو پیش نظر رکھے۔
اس بارے میں انگیلا میرکل نے واضح طور پر کہا، ’’جرمنی ایسی ہر کوشش کی مخالفت کرے گا، جو پوری یورپی مشترکہ منڈی کے مفاد میں نہ ہو اور جس کے ذریعے عالمی تجارت کو کھوکھلا کرنے کی کوئی کاوش کی جائے۔‘‘
منگل پچیس ستمبر کو چانسلر میرکل نے لندن میں ویسٹ منسٹر کی ان توقعات کو بھی رد کر دیا کہ برطانیہ بریگزٹ کے بعد بھی پہلے کی طرح اشیاء کی یورپی مشترکہ منڈی کا حصہ رہ سکتا ہے۔
تاہم اس اختلاف رائے کے باوجود جرمن سربراہ حکومت نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ یورپی یونین اور برطانیہ کے مابین بریگزٹ سے متعلق ایک معاہدہ اکتوبر تک طے پا سکتا ہے۔
سب سے بڑا اختلاف
ملکی دارالحکومت برلن میں جرمن صنعتوں کی وفاقی تنظیم بی ڈی آئی کے زیر اہتمام سرکردہ کاروباری شخصیات کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انگیلا میرکل نے کہا، ’’یہ تو ہو نہیں سکتا، جیسے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے تجویز پیش کی ہے، کہ اگلے برس مارچ کے اختتام پر بریگزٹ کے بعد برطانیہ اشیاء کی یورپی سنگل مارکیٹ کا حصہ تو رہے لیکن سرمائے اور مالیاتی خدمات کے شعبے میں مشترکہ منڈی میں شامل رہنے سے انکار کر دے۔‘‘
چانسلر میرکل کی رائے میں یہ ممکن ہے کہ مستقل میں یورپی یونین اور برطانیہ کے باہمی روابط سے متعلق ایک ایسا معاہدہ طے پا جائے، جس میں فیصلہ کن اہمیت بہت قریبی نوعیت کے ایک آزاد تجاری علاقے کو دی جائے۔
میرکل کے الفاظ میں، ’’اگر ایسا نہ ہوا تو بریگزٹ کے حوالے سے ’عبوری مدت‘ کا اب تک طے شدہ 2020ء کے آخر تک کا عرصہ بھی کم پڑ جائے گا۔‘‘
یورپی یونین کے دیگر تقریباﹰ سبھی رکن ممالک کے رہنماؤں کی طرح جرمن چانسلر کی سوچ بھی یہی ہے کہ بریگزٹ سے متعلق بے یقینی کی صورت حال اور کسی بڑی مذاکراتی پیش رفت کی عدم موجودگی یورپی معیشتوں کے لیے بےچینی کا سبب بن رہی ہے۔
اسی لیے یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی کی سربراہ حکومت کے طور پر انگیلا میرکل نے کہا، ’’کاروباری شعبوں کو واضح صورت حال اور شفافیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں دیکھ سکتی ہوں کہ یورپی یونین کے لیے آنے والے دن اور ہفتے بہت ہی کٹھن اور صبر آزما ہوں گے۔‘‘
بریگزٹ مذاکرات میں اب تک کسی بڑی پیش رفت کا سامنے نہ آنا اور یورپی رہنماؤں کی طرف سے برطانوی وزیر اعظم مے کی پیش کردہ تجاویز کا رد کر دیا جانا خود ٹریزا مے اور ان کی حکومت کے لیے بھی شدید پریشانی اور دباؤ کا باعث بنا ہوا ہے۔