جرمنوں نے 200 سال قبل برازیل ہجرت کیوں کی؟
10 اگست 2024انیسویں صدی کے اوائل کا جرمنی آج کے جرمنی سے بہت مختلف تھا۔ تب یہاں کے لوگوں کو نپولین کی جنگوں کے نتائج کا سامنا تھا، فصل بھی اچھی نہیں ہو رہی تھی اور ٹیکسوں کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
ایسے میں ہر خاندان کے لیے 77 ہیکٹر زمین، مویشیوں، بیجوں اور کاشت کاری کے لیے درکار آلات کی فراہمی اور دو سال تک مالی معاونت کی پیشکش نہایت ہی پر کشش تھی۔ اور یہ پیشکش جرمن باشندوں کو دور دراز واقع برازیل میں آ کر آباد ہونے کے عوض کی گئی تھی۔
تو پھر کئی جرمنوں نے اپنے وطن کو خیر باد کہہ دیا اور برازیل جا کر بس گئے۔
برازیل میں جرمنوں کو جگہ کیوں دی گئی؟
جنوری 1824ء کی بات ہے، جب 280 افراد کو لے کر آرگس نامی ایک جہاز ریو ڈی جنیرو کی بندر گاہ پہنچا تھا۔ یہ وہ پہلا جہاز تھا جس میں ''برازیل کی سلطنت کی خدمت میں‘‘ جرمن باشندے لائے گئے تھے۔
اس سے دو سال قبل ہی برازیل کو پرتگال سے آزادی ملی تھی، جس کی وہ طویل عرصے تک کالونی رہا تھا۔
اب انیسویں صدی میں برازیل کے شہنشاہ ڈوم پیڈرو اول کا وہاں دوسرے ممالک سے تارکین وطن کو جگہ دینے کا فیصلہ صرف خیر سگالی کے جذبے پر مبنی نہیں تھا۔ بلکہ انہیں کاشت کاری کے لیے اور برازیل کے دشمن ممالک سے لڑائی کی صورت میں افرادی قوت کی ضرورت تھی۔
اس حوالے سے فری یونیورسٹی آف برلن سے منسلک مورخ اسٹیفان غنکے کا کہنا ہے کہ اس وقت ''یہ نظر آ رہا تھا کہ غلامی کا دور ختم ہونے والا ہے اور سوال یہ تھا کہ کام کرنے کے لیے افراد کہاں سے لائے جائیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا، ''لوگوں کو اندازہ تھا کہ غلامی کا دور زیادہ عرصے نہیں رہے گا اور برطانیہ کی جانب سے غلاموں کی تجارت پر پابندی کے باعث (برازیل میں) سامان کا حصول بھی مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ یہی وقت تھا جب ان کی توجہ جرمن علاقوں کی طرف مبذول ہوئی۔ انہیں معلوم تھا کہ وہاں کئی غریب باشندے ہیں، جن پر دباؤ ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔‘‘
لیکن تارکین وطن کی بڑی تعداد کو قبول کرنے کی اس پالیسی کے پیچھے برازیل کی اشرافیہ کا ایک اور مقصد بھی تھا۔
غنکے کے بقول اس دور کے برازیل میں ترقی کا مطلب''یورپینائزیشن‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کہا، ''ان کو یورپی باشندے چاہیے تھے۔ اور ان کی خواہش محظ یوربی باشندوں کی نہیں تھی، بلکہ خصوصاﹰ وسطی یورپ کے باشندوں کی تھی کیونکہ ان کو زیادہ محنتی، پر عزم اور فرمانبردار سمجھا جاتا تھا۔ اور اگر آپ کو نئی رعایا چاہیے ہو تو یہ خصوصیات اہمیت کی حامل ہیں۔‘‘
برازیل آمد سے سماجی انضمام تک
اس پس منظر میں ایک صدی کے عرصے میں تقریباﹰ 250,000 جرمن باشندے برازیل جا کر آباد ہوئے۔
تاہم وہاں ان کا آباد ہونا اتنا آسان نہیں تھا۔ انہیں وہاں کے آبائی باشندوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جنہوں نے ان کے ساتھ خونریز لڑائیاں بھی لڑیں۔
اس سلسلے کو روکنے کے لیے حکومت نے کرائے کی فوجیوں کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے برازیل کے مقامی باشندوں کی بڑی تعداد کو مار ڈالا۔
دوسری طرف برازیل میں جرمن باشندے ترقی کرتے رہے۔ تاہم انہوں نے اپنی روایات اور شناخت کو تب تک نہیں چھوڑا تھا اور ان میں سے اکثریت جرمن زبان ہی بولتی تھی۔
ان کے اس رویے سے برازیل کے مقامی باشندوں کو خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا کہ جرمنی سے باہر نازی پارٹی کے ممبران کی سب سے زیادہ تعداد برازیل میں ہی تھی۔
بالآخر برازیل میں جرمن زبان اور نازی رنگ، سابق صدر گیٹولیو ورگاس کے دور میں ایک کریک ڈاؤن کے بعد کم ہوتا نظر آیا۔ اس دوران برازیل میں نہ صرف نازی پارٹی بلکہ جرمن زبان پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی، جرمن اسکولوں اور کلبوں کو بند کر دیا گیا تھا اور جرمن زبان کا استعمال جرم قرار دے دیا گیا تھا۔
سن 1945 میں نازیوں کی دور حکومت میں جرمنی تباہ حال بھی تھا اور بدنام بھی۔ اسی دوران برازیل میں بسے جرمن نژاد خاندانوں کا اپنے آباؤ اجداد کے ملک سے رابطہ ختم ہوتا گیا، ان کے بچوں نے پرتگالی زبان بولنی سیکھ لی اور وہ برازیلن معاشرے میں ضم ہو گئے، جیسے کہ وہ وہاں کے مقامی باشندے ہی ہوں۔
م ا ⁄ ع ت (سوزانے کورڈز)