جرمنی: آج مساجد کے دروازے سب کے لیے کھُلے ہیں
3 اکتوبر 2013اس موقع پر سیمیناروں، مباحثوں، تقاریر اور نمائشوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن کا مقصد ہر اُس شخص کے لیے اسلام سے متعلق معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے جو اس دین کے بارے میں جاننا چاہتا ہو اور جسے اس سے دلچسپی ہو۔ مساجد کے دروازے ہر کسی کے لیے کُھلے رکھنے کا يہ دن 1997ء سے ہر سال منايا جاتا ہے۔ اندازوں کے مطابق جرمنی ميں مساجد کی تعداد 500 سے زائد ہے اور ہر سال تقریباﹰ ایک لاکھ غیر مسلم افراد تین اکتوبر کے دن مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ رواں سال اس دن کا موضوع ’تحفظ ماحول‘ رکھا گيا ہے۔ جرمنی میں کام کرنے والے مرکزی اسلامی اتحاد کے مطابق تحفظ ماحول ہر مسلمان کے لیے فرض ہے۔
کولون کی سب سے بڑی مسجد
گزشتہ پانچ برسوں سے کولون کی سب سے بڑی اور مرکزی مسجد کی تعمیر جاری ہے۔ قانونی پیچیدگیوں اور مسجد کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث اس کی افتتاحی تاریخ کئی بار ملتوی کی جا چکی ہے۔ ترک اسلامی یونین DITIB کی خاتون ترجمان عائشہ آئدن کا کہنا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر آئندہ موسم گرما تک مکمل ہو جائے گی۔
شہر کولون کے علاقے ’ایرن فیلڈ‘ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور یہی وجہ ہے کہ مرکزی مسجد کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ لیکن اس مسجد کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ مسجد صرف عبادت کے لیے ہی نہیں بنائی گئی بلکہ یہ ایک ایسی جگہ ہو گی، جہاں مسلمان اور غیر مسلمان آپس میں مل بیٹھیں گے اور خیالات کا تبادلہ کریں گے۔
اس مسجد کی طرف سے مقرر کیے گئے بین المذاہب مکالمت کے نگراں باکر البوگا کہتے ہیں، ’’آپ عمارت کے انفرادی حصوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو نوجوانوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں اور جو لوگ مذہب کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتے ہیں، سب کے لیے جگہ نظر آئے گی۔ یہاں ہر کسی کی دلچسپب سے متعلق سہولیات مہیا ہیں۔ خریداری کرنے والوں کے لیے دکان ہے، چائے پینے والوں کے لیے ٹی ہاؤس، نماز ادا کرنے والوں کے لیے، اسلام پر تحقیق کرنے والوں، سب کے لیے جگہ مخصوص ہے۔ غرضیکہ یہ مسجد ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ اس مسجد کی عمارت اتنی خوبصورت ہے کہ لوگ دور دور سے اس کے فن تعمیر کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس مسجد میں تاریکن وطن مسلمانوں کے بارے میں ایک مستقل نمائش بھی لگائی گئی ہے۔‘‘
کولون شہر کی اس مسجد میں خاص طور پر ایک لائبریری بنائی گئی ہے جبکہ سیمنارز ، تربیتی کورسز اور انتظامیہ کے لیے دفاتر بھی موجود ہیں۔ اس مرکزی مسجد میں قرآنی کورسز کے علاوہ عربی زبان کی کلاسیں بھی ہوں گی۔ اس کے علاوہ عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال سے لے کر خاندانی مسائل اور سماجی کاموں کے بارے میں ٹیلی فونک مشاورت کی سہولت بھی دی جائے گی۔ انتظامیہ کے مطابق مستقبل میں 40 سے 50 افراد صرف اور صرف اس مرکزی مسجد کے لیے کام کریں گے۔
جرمن ثقافتی کونسل سے منسلک اولاف سِمر مان کا کہنا ہے کہ مساجد کے دروازے کُھلے رکھنے کا يہ دن بہترین موقع ہے ’ايک اجنبی تصور کيے جانے والے کلچر سے قريب آنے کا‘ ۔ انہوں نے کہا کہ غير مسلم اسلام کے بارے ميں جاننے کے لیے کافی جوش و جذبہ رکھتے ہیں۔ اور انہیں تجسس بھی ہے۔ ان کے مطابق اسلامی تاريخ اور اصولوں کا علم حاصل کرنا افہام و تفہیم اور مل جل کر رہنے کے ليے نہایت ضروری ہے۔