جرمنی: اسلامی شدّت پسندی پر مباحثے کی ضرورت
31 جولائی 2009جرمن انسٹیٹیوٹ آف ہیومین رائٹس کے ڈائریکٹر پروفیسر ہائینر بیلے فیلٹ کا موقف ہے کہ جرمنی میں اسلامی شدّت پسندی کے خلاف نفرت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ جرمنی میں ہر شخص اسلام کے بارے میں منفی خیالات رکھتا ہے مگر اس مسئلے کو یہاں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔
سماجیات کے ماہرین کے مطابق جرمنی میں ذرائع ابلاغ اسلام کی ایک خاص شکل پیش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عام لوگ بھی اس مذہب کے بارے میں مخصوص خیالات رکھتے ہیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ جرمنی میں عام افراد کو اسلامی شدّت پسندی کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں ہے۔
بیلے فیلٹ کے مطابق جرمن ذرائع ابلاغ میں اسلام کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو ہوتی ہے لیکن اس گفتگو کی نوعیت ایک مخصوص پیرائے میں کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس سانچے کو توڑنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی کی کل آبادی آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہے اور کم از کم چالیس لاکھ افراد یہاں مسلمان ہیں۔ مسلمان آبادی میں زیادہ تر تعداد انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں یہاں مزدوری کی غرض سے آئے ترک افراد ہیں، جو اب یہاں مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں یہودیت دشمنی کو ختم کرنے کے لیے مؤثر کوششیں کی گئیں تاہم انیس سو نوّے کی دہائی میں دنیا بھر میں اسلامی شدّت پسندی کے عروج کے بعد جرمنی میں اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اس طرح کی کوششیں نہیں کی گئیں، جن سے اسلام اور اسلامی شدّت پسندی کو ایک دوسرے سے جدا کر کے دکھایا جا سکتا۔
تاہم حالیہ چند برسوں میں جرمن حکومت نے جرمنی میں آباد مسلمانوں کے جرمن معاشرے میں بھرپور انضمام کے لیے مربوط اور سنجیدہ کوششیں شروع کی ہیں، جن میں مسلمانوں کو ملک کے سیکیولر تعلیمی نظام سے زیادہ سے زیادہ آشنا اور ہم آہنگ کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔
جرمن انسٹیٹیوٹ آف ہیومین رائٹس کے ڈائریکٹر بیلے فیلٹ کہتے ہیں کہ جرمن معاشرہ حالیہ کچھ عرصے میں بہت مثبت انداز سے تبدیل ہوا ہے تاہم اب بھی بعض افراد اسلام اور اسلامی بنیاد پرستی کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس بات کی ضرورت ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کو اسی انداز سے دیکھا اور پرکھا جائے، جس طرح سے دوسرے افراد کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ ہر شخص کی طرح مسلمان بھی اچھے اور برے ہوتے ہیں۔