1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: اسکول طلبہ کے ہٹلر سیلوٹ کے بعد نئی بحث کا آغاز

امجد علی16 ستمبر 2016

جرمن شہر میونخ کے ایک اسکول کے چار طلبہ کی جانب سے ہٹلر سیلوٹ کے بعد ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ پہلے اسکول کی جانب سے ان طلبہ کو سخت وارننگ جاری کی گئی تھی، جسے اب واپس لے لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1K3nI
Deutschland Gymnasium in Weingarten
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Kästle

اپنے دائیں بازو کو آگے کی طرف لمبا کرنا، ہاتھ کی انگلیوں اور انگوٹھے کو آپس میں جوڑ کر رکھنا اور کھلی ہتھیلی کا رُخ نیچے کی طرف رکھنا نازی آمر اڈولف ہٹلر کے سلام کا مخصوص انداز تھا۔ جرمنی میں مذاق کے طور پر بھی اس سلام کی نقل کرنا ایک قابلِ تعذیر جرم سمجھا جاتا ہے۔

جنوبی جرمن شہر میونخ کے علاقے نوئپر لاخ کے ولہیلم روئنٹگن سیکنڈری اسکول کے نویں جماعت کے چار طلبہ کے ایک گروپ نے مذہبی علوم کی کلاس شروع ہونے پر ہٹلر کے انداز میں سلام کیا تھا۔ مقامی میڈیا نے اس سال اپریل میں پیش آنے والے اس واقعے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ اس گروپ میں تین لڑکوں کے ساتھ ساتھ ایک لڑکی بھی شامل تھی۔

اس واقعے کے نو روز بعد اسکول کی پرنسپل نے چاروں طالب علموں کو ’سخت وارننگ‘ جاری کی تھی اور کہا تھا کہ اسکول میں ایسا طرزِ عمل ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان طالب علموں نے جغرافیے کی کلاس میں بھی دائیں بازو کے انتہا پسندانہ تاثرات کا اظہار کیا تھا۔

جمعرات پندرہ ستمبر کو اس تنازعے میں اُس وقت ایک نیا موڑ آیا، جب جرمن میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں یہ بتایا کہ ان طلبہ کو دی گئی ’سخت وارننگ‘ واپس لے لی گئی ہے اور اُسے ’تعلیمی اقدامات‘ میں بدل دیا گیا ہے۔

ان رپورٹوں کے مطابق ان طلبہ کے والدین بھی اس تنازعے میں سرگرم ہو گئے تھے، یہاں تک کہ اُنہوں نے اسکول کی انتظامیہ کو قانونی کارروائی کی دھمکی تک بھی دے ڈالی تھی جبکہ اسکول کا موقف یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

Klassenzimmer Willkommensklasse
جرمنی کے ایک اسکول میں تعلیم حاصل کرنے میں مصروف طلبہ (فائل فوٹو)تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen

اسکول کی پرنسپل ایرینا کُٹنر نے کہا کہ اس واقعے کو غلط انداز میں لیا گیا ہے اور یہ کہ درحقیقت ان طالب علموں کا سیلوٹ محض ایک احمقانہ مذاق تھا اور یہ کہ یہ نوعمر یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ دراصل کیا کر رہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ پرنسپل کُٹنر نے طلبہ کے والدین کی دھمکیوں کے باعث اپنا فیصلہ بدلا ہے۔

پرنسپل ایرینا کُٹنر نے اسکول انتظامیہ کے نظر ثانی شُدہ فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر تعلیم و تربیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنا وارننگز کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح طالب علموں کو کسی مخصوص موضوع سے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننا پڑتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اب ان چاروں نو عمروں کو نازی دورِ حکومت کے حوالے سے ایک معلوماتی پریزنٹیشن دینے کے لیے کہا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید