جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی ’رائشس بُرگر تحریک‘
یہ تحریک نہ صرف کورونا وائرس کے حوالے سے عائد پابندیوں کو نہیں مانتی بلکہ جرمن حکومت کے آئینی جواز کو بھی مسترد کرتی ہے۔ یہ تحریک کیا ہے اور جرمن حکومت اس کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہے؟
یہ تحریک کرتی کیا ہے؟
یہ تحریک ٹیکس اور جرمانے ادا کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس میں شامل افرد اپنی ذاتی املاک کو جرمن حکومت کے عمل دخل سے باہر تصور کرتے ہیں۔ نہ تو جرمن آئین کو مانتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ اپنے پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس تک خود بناتے ہیں۔ عدالتوں میں مسلسل کیس دائر کرتے رہتے ہیں۔
یہ کتنا بڑا خطرہ ہیں؟
اس تحریک کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا تھا اور اس کا کوئی رہنما نہیں۔ جرمن خفیہ ادارے کے مطابق اس تحریک کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور تقریباً انیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے 950 انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی لسٹ میں شامل ہیں جبکہ ایک ہزار کے پاس اسلحہ رکھنے کا لائسنس ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ یہودی اور مسلمان مخالف نظریات کی پیروی کرتے ہیں۔
اس کے اراکین اور مسٹر جرمنی کون ہیں؟
جرمن حکام کے مطابق اس تحریک کے اراکین کی اوسطا عمر پچاس سال ہے جبکہ یہ معاشرتی اور مالی طور پر پسماندہ ہیں۔ زیادہ تر اراکین جرمنی کے مشرقی اور جنوبی علاقوں سے ہیں۔ آدریان اورزاخے سابق مسٹر جرمنی ہیں اور اس تحریک کا ہی حصہ ہیں۔ انہیں سن دو ہزار انیس میں ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ سے زخمی کرنے کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
فیصلہ کن موڑ
وولفگانگ پی کا کیس جرمن حکام کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا۔ انہیں سن 2017 میں ایک پولیس اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ مبینہ طور پر اس تحریک کے اس ہلکار نے اس پولیس اہلکار پر فائرنگ کی، جس نے اسلحہ برآمد کرنے کے لیے اس مجرم کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ اس واقعے کے بعد جرمن حکام چوکنا ہو گئے تھے۔
جرمن حکام کیا کر رہے ہیں؟
جرمن حکام پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے طویل عرصے تک اس خطرے کو نظرانداز کیا۔ سن 2017ء میں پہلی مرتبہ خفیہ ایجنسی نے اس تحریک کے خطرناک اراکین کی فہرست تیار کی۔ تب سے متعدد اراکین اور اس تحریک کے ذیلی کالعدم گروپوں کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس اور جرمن فوج میں بھی اس تحریک کے ممکنہ اراکین کی موجودگی کی چھان بین کی جا چکی ہے۔
بین الاقوامی سیاست اور سازشی نظریات
اس تحریک کے کئی اراکین روسی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔ ان کے خلاف سب سے بڑا الزام بھی یہی ہے کہ انہیں روس کی مالی معاونت حاصل ہے اور یہ جرمن حکومت کو کمزور بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا موازنہ امریکی گروپ ’فری مین آن دا لینڈ‘ سے بھی کیا جاتا ہے۔ اس تحریک کے اراکین کا موقف بھی یہی ہے کہ وہ صرف ان قوانین کے پابند ہیں، جن پر وہ رضامند ہیں۔