باہر سے آئے آجرین کا کارنامہ، روزگار کے دو ملین مواقع
11 اگست 2016جرمنی ميں داخلی سطح پر ايسی نئی کمپنيوں کی تعداد ميں اضافہ ہو رہا ہے، جن کی بنياد ترک وطن کے پس منظر کے حامل افراد نے رکھی ہو۔ ساتھ ساتھ ايسے افراد کی جرمن روزگار کی منڈی ميں شراکت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ملکی سطح پر اب تقريباً دو ملين افراد ايسی کمپنيوں ميں ملازمت کر رہے ہيں، جن کی ملکيت کے حامل ترک وطن پس منظر کے حامل افراد ہيں۔ يہ انکشافات ’بيرٹلزمن فاؤنڈيشن‘ کے ايک مطالعے کے نتائج کی روشنی ميں کيے گئے ہيں۔ اسی کی بنياد پر اسٹڈی کے مرکزی محقق نے زور ديا ہے کہ مہاجرين کو مخصوص پيشوں اور ملازمتوں سے منسلک کيے جانے کے اب تک جاری عمل کو خيرباد کہنے کا وقت آ گيا ہے۔
اس مطالعاتی جائزے کے نتائج کے مطابق سن 2005 سے لے کر سن 2014 تک کے دوران ترک وطن کے پس منظر والے افراد کی کمپنيوں کی تعداد ميں پچيس فيصد کا اضافہ ريکارڈ کيا گيا اور اس عرصے کے اختتام پر يہ تعداد بڑھ کر 790,000 ہو گئی۔ اس پس منظر والے افراد کی کمپنيوں ميں سن 2005 ميں قريب 947,000 افراد ملازمت کيا کرتے تھے، جن کی تعداد بڑھ کر سن 2014 ميں 1.3 ملين تک جا پہنچی۔ ’بيرٹلزمن فاؤنڈيشن‘ نے اپنی اس اسٹڈی ميں ان افراد کو شامل کيا جو سن 1949 کے بعد ترک وطن کر کے جرمنی آئے يا پھر جن کے والدين ميں سے کم از کم ايک ترک وطن پس منظر کا حامل ہے۔
اس تحقيق کے سربراہ ارمانڈو گارسيا شمٹ نے بتايا، ’’جب لوگ ترک وطن کے پس منظر والے افراد کی کميونٹيز ميں کاروباری سرگرميوں کی بات کرتے ہيں تو ان کے ذہن ميں يہی آتا ہے کہ چائنيز کھانے کی کوئی دکان ہو گی يا پھر کوئی حجامت کا مرکز، جہاں پورے کے پورے خاندان ملازمت کر رہے ہوں گے۔‘‘ شمٹ کے بقول حقيقت اس کے برعکس ہے اور يہی وجہ ہے کہ ايسے تصورات کو ترک کرنے کا وقت آ گيا ہے۔ انہوں نے اپنی اسٹڈی کا حوالہ ديتے ہوئے بتايا کہ سن 2014 ميں ترک وطن کے پس منظر والے افراد کی مجموعی کمپنيوں ميں صرف ايک چوتھائی حصہ ايسی کمپنيوں کا تھا، جو ريٹيل يا اشياء کی براہ راست عام صارفين کو فروخت يا کھانے پکانے کے کام سے منسلک تھے۔
دوسری جانب اس مطالعے کے نتائج ميں يہ بھی سامنے آيا ہے کہ ترک وطن پس منظر والے کمپنی مالکان اب بھی ديگر جرمن کمپنی مالکان کے مقابلے ميں اوسطاً تيس فيصد کم آمدنی کماتے ہيں۔