جرمنی: سینکڑوں مسلم انتہا پسند، ’کسی بھی وقت بڑا حملہ ممکن‘
11 دسمبر 2015وفاقی دارالحکومت برلن سے جمعہ گیارہ دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ نے کہی۔ یہ جرمن خفیہ ادارہ اصطلاحاﹰ تحفظ آئین کا وفاقی ادارہ یا BfV کہلاتا ہے، جس کے صدر ہنس گیورگ مآسن نے کہا کہ ان کی ایجنسی ملک میں موجود 430 مسلم شدت پسندوں کو اتنا خطرناک سمجھتی ہے، کہ وہ ’شدید نوعیت کا خطرہ‘ ہیں اور کسی بھی وقت کسی بڑے جرم یا حملے کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔
جرمن حکام کے مطابق ان بہت خطرناک شدت پسندوں سمیت ملک میں ایسے مسلم انتہا پسندوں کی مجموعی تعداد 1100 سے زائد بنتی ہے، جو مخصوص حالات میں پرتشدد واقعات پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
ہنس گیورگ مآسن نے وسطی جرمنی کے پبلک ریڈیو ایم ڈی آر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جمعرات دس دسمبر کو رات گئے بتایا کہ ’شدید خطرہ‘ سمجھے جانے والے یہ 430 مسلمان شدت پسند ایسے ہیں، جن پر ملکی انٹیلیجنس اور سکیورٹی ادارے بہت قریب سے مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق تحفظ آئین کے وفاقی ادارے کے سربراہ نے اسی انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ برلن میں وفاقی پارلیمان نے ابھی حال ہی میں شام میں دہشت گرد گروہ اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے خلاف سرگرم بین الاقوامی اتحاد کی مدد کی خاطر جو غیر جنگی جرمن دستے مہیا کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس کے بعد ملک میں انتہا پسندوں کے ممکنہ حملوں کے خطرات میں مزید اضافہ ہو گا۔
جرمنی نے ابھی حال ہی میں دولت اسلامیہ کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد کے لیے اپنے 1200 تک فوجی مہیا کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن یہ دستے کسی قسم کی جنگی کارروائیوں میں شریک نہیں ہوں گے۔ انہی دستوں کا ایک حصہ فیڈرل آرمی کے ٹورناڈو طیاروں کے ذریعے شام میں آئی ایس کے ٹھکانوں اور اہداف کے خلاف فضائی جاسوسی کے فرائض انجام دے گا۔
ہنس گیورگ مآسن نے مزید کہا کہ جرمن سکیورٹی اداروں کی خواہش ہے کہ وہ مہاجرین اور تارکین وطن جو جرمنی پہنچ چکے ہیں، وہ حکام کو اپنے ساتھ سفر کرنے والے ان افراد کے بارے میں معلومات مہیا کریں، جو ممکنہ طور پر جرمنی میں مسلح حملوں کے منصوبے بنا رہے تھے یا بنا رہے ہوں۔
مآسن نے MDR ریڈیو کو بتایا کہ جرمنی کئی برسوں سے القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے نشانے پر ہے، اور اس وجہ سے جرمنی کی ریاستی سلامتی کو لاحق خطرات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اسی دوران مآسن نے جنوبی صوبے باویریا سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے ساتھ آج جمعے کے روز اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جرمنی میں سلفی شدت پسند یہاں آنے والے مہاجرین کو ممکنہ طور پر اپنی صفوں میں بھرتی کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی اہلکار ایسی 150 سے زائد کوششوں سے آگاہ ہیں، جو شدت پسندوں نے نئے آنے والے تارکین وطن کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے مہاجرین کی پناہ گاہوں کے قرب و جوار میں کیں۔