1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پھر سے شروع

شمشیر حیدر AFP/KNA
22 جون 2017

مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل پھر سے شروع ہو رہا ہے۔ گزشتہ ماہ کے اواخر ميں کابل میں ہونے والے دھماکوں کے بعد جرمن حکومت نے افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری روک دی تھی۔

https://p.dw.com/p/2fASE
Demonstration Köln gegen Abschiebung nach Afghanistan Menschenrechte
تصویر: DW/R.Shirmohammadil

اطلاعات کے مطابق جرمنی میں پناہ کے مسترد شدہ افغان درخواست گزاروں کی خصوصی طیاروں کے ذریعے جبری ملک بدری کا سلسلہ اگلے ہفتے سے دوبارہ شروع ہو رہا ہے۔ برلن حکومت نے کابل میں ہونے والے کئی دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل اسی ماہ روک دیا تھا۔

جرمنی: مہاجرین کی ملک بدری کے لیے خصوصی اہلکار درکار

ہزاروں ‘افغان طالبان جنگجو‘ جرمنی میں پناہ کے متلاشی

جرمنی کے عوامی نشریاتی ادارے این ڈی آر اور موقر جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ افغان مہاجرین کو خصوصی پروازوں کے ذریعے افغانستان پہچایا جائے گا اور اس سلسلے میں پہلی پرواز آئندہ ہفتے بدھ کے روز جرمن شہر لائپزگ سے روانہ ہو گی۔ حکومتی ذرائع نے تاہم اب تک ایسی رپورٹوں کی تصدیق نہیں کی ہے۔

Germany to resume deportations to Afghanistan

کابل میں ہونے والے بم حملوں کے بعد جرمنی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ روکتے ہوئے کہا تھا کہ جرمن وزارت خارجہ افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کا از سر نو جائزہ لے گی، جس کے بعد پھر سے افغان شہریوں کی وطن واپسی شروع کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے افغان مہاجرین کی ملک بدری روکنے کا اعلان کرتے وقت یہ بھی کہا تھا کہ اپنی حقیقی شناخت چھپانے والے، جرائم میں ملوث اور ملکی سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے افغان تارکین وطن کو ہر صورت ملک بدر کیا جائے گا۔

کئی جرمن سیاست دانوں اور مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم اداروں نے ایسی رپورٹوں پر ردعمل دکھاتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ’پرو ازول‘ کے سربراہ گنٹر بُرکہارڈ نے اس فیصلے کو ’ناقابل فہم اور بھیانک‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ایسے فیصلوں سے کئی پناہ کے مستحق افغان مہاجرین کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

رواں برس کے آغاز سے لے کر اپریل کے اختتام تک جرمنی سے ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن کو جبری طور پر ملک بدر کیا گیا جب کہ گیارہ ہزار سے زائد تارکین وطن رضاکارانہ طور پر اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے تھے۔

پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی

کس یورپی ملک میں زیادہ پاکستانی مہاجرین کو پناہ ملی؟