جرمنی میں پناہ کے متلاشی: ملک بدری کی دو تہائی کوششیں ناکام
5 مارچ 2023وفاقی دارالحکومت برلن سے اتوار پانچ مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جو غیر ملکی جرمنی آ کر مہاجرین یا تارکین وطن کے طور پر پناہ کی درخواستیں دیتے ہیں، انہیں ایسا کرنے کے لیے کئی مراحل پر مشتمل پورا قانونی موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
جرمنی میں ملک بدری کے سخت تر قوانین زیر بحث
تاہم جن تارکین وطن کی ایسی درخواستیں ناکام رہتی ہیں، انہیں ملک بدر کرنے کے حکام کے ارادے اور عملی کوششیں تقریباﹰ دو تہائی واقعات میں ناکام ہی رہتے ہیں۔
ایسا زیادہ تر اس لیے ہوتا ہے کہ یا تو ایسے غیر ملکیوں کو ملک بدر کر کے واپس ان کے آبائی ممالک بھیجنے کے لیے فضائی پروازیں منسوخ ہو جاتی ہیں یا پھر پناہ کے حصول میں قانونی طور پر ناکام رہنے والے ایسے غیر ملکی باشندے جرمنی سے اپنی روانگی کے دن یا اس سے چند روز قبل ہی لاپتہ ہو جاتے ہیں۔
بنڈس ٹاگ میں حکومت سے پوچھا جانے والا سوال
پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے تارکین وطن کی جرمنی سے ملک بدری کی موجودہ صورت حال کیا ہے اور اعداد و شمار کیا کہتے ہیں، اس بارے میں بنڈس ٹاگ کہلانے والی وفاقی جرمن پارلیمان میں اپوزیشن کے قدامت پسند پارلیمانی حزب کے ایک رکن کی طرف سے حکومت سے باقاعدہ سوال پوچھا گیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں وفاقی وزارت داخلہ نے بتایا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک اپنے ہاں سے غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری میں اس لیے تیزی لانا چاہتے ہیں کہ یوں غیر قانونی ترک وطن کے مسئلے سے نمٹتے ہوئے قانونی ترک وطن کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔ تاہم گزشتہ کئی برسوں سے اس عمل میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
يورپی يونين سے ملک بدريوں ميں تيزی کا امکان
جرمن حکومت کی طرف سے بنڈس ٹاگ کو بتایا گیا کہ 2022ء میں جرمنی سے پناہ کے ناکام درخواست دہندہ 12,945 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ مگر 23,337 تارکین وطن ایسے بھی تھے، جنہیں پچھلے سال ملک بدر کیا جانا تھا اور اس کے لیے کوششیں بھی کی گئیں تاہم ایسی سرکاری کاوشیں ناکام رہیں۔
ترک وطن ’ایک باقاعدہ بحران‘
وفاقی پارلیمان میں اپوزیشن کی قدامت پسند یونین جماعتوں کے حزب کے داخلہ امور کے ترجمان آلیکسانڈر تھروم نے اتوار پانچ مارچ کو اخبار بلڈ ام زونٹاگ کو بتایا کہ پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے تارکین وطن کی ملک بدری اور ان کا واپس ان کے آبائی ممالک کو بھیجا جانا موجودہ مخلوط حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
جرمنی میں ساڑھے نو ہزار سے زائد ملک بدریاں
آلیکسانڈر تھروم نے کہا، ''ہم اس وقت تارکین وطن کی وجہ سے ایک ایسے بحران کا شکار ہیں، جو 2016ء کے بعد سے آج تک کا اپنی نوعیت کا شدید ترین بحران ہے۔‘‘
یورپی یونین سے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر واضح اضافہ
انہوں نے چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ حکمران سیاسی جماعتوں کے مابین شراکت اقتدار کے لیے طے کردہ اس معاہدے پر ہی عمل نہیں کر سکی، جس میں کہا گیا تھا کہ پناہ کے متلاشی ناکام تارکین وطن کو جرمنی سے واپس بھیجنے کا عمل تیز تر کر دیا جائے گا۔
ملک بدر کیے جانے والوں کی فہرست کتنی طویل؟
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی رجسٹر کے مطابق گزشتہ برس 31 دسمبر تک پورے ملک میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تین لاکھ چار ہزار تین سو آٹھ بنتی تھی، جن کے جرمنی میں قیام کی قانونی حیثیت ایسی تھی کہ انہیں جبری رخصتی پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔
لیکن ان میں سے دو لاکھ اڑتالیس ہزار ایک سو پینتالیس غیر ملکی ایسے بھی تھے، جن کی ملک بدری حکام کو کئی مختلف قانونی وجوہات کی بنا پر عارضی طور پر معطل کرنا پڑ چکی تھی۔
م م / ش ح (ڈی پی اے، بلڈ ام زونٹاگ)