جرمنی: صوبائی انتخابات ميں حکومتی شکست کی وجہ ايٹمی پاليسی
28 مارچ 2011کل اتوار کو جرمنی کے دو وفاقی صوبوں ميں ہونے والے صوبائی پارليمانی انتخابات ميں وفاقی حکومت کے نقصانات اس قدر شديد ہيں کہ حکومت انہيں نظر انداز کرتے ہوئے يہ نہيں ظاہر کر سکتی جيسے کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہو۔
ايک انتخابی حلقے کے ناظم نے کچھ دن پہلے کہا کہ اس نے اس مرتبہ ايک ايسی بات ديکھی، جس کا تجربہ اُسے اس سے پہلے کبھی نہيں ہوا تھا۔ کئی ووٹروں نے، جو خط کے ذريعے اپنے ووٹ دے چکے تھے، اس سے کہا کہ وہ دوبارہ ووٹ ڈالنا چاہتے ہيں کيونکہ انہوں نے اپنی رائے تبديل کر لی ہے۔ ظاہر ہے کہ يہ ممکن نہيں تھا، ليکن اس سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی ايک موضوع کا اثر ووٹروں پر کتنا زيادہ پڑ سکتا ہے۔ جاپان کے ايٹمی حادثے کے بعد جرمنی ميں ايٹمی طاقت سے متعلق تفکرات ميں نماياں اضافہ ہوگيا ہے اور ان سياسی جماعتوں کی طرف رجحان واضح طور پر بڑھا ہے، جو ايٹمی توانائی کو خطرناک سمجھتے ہوئے اُس کی مخالف ہيں۔
يہ کچھ عجيب سا تو معلوم ہوتا ہے ليکن اس انتخابی شکست ميں چانسلر ميرکل کے لئے ايک اچھا موقع بھی پنہاں ہو سکتا ہے: اگر انہيں توانائی کی پاليسی کو تبديل کرنے ميں کاميابی ہوجاتی ہے اور وہ ايٹمی توانائی کی بجائے توانائی کے قدرتی يا قابل تجديد ذرائع کی طرف رخ موڑ ليتی ہيں، تو وہ اس ہنگامہ خيز صورتحال سے صحيح سالم باہر نکل سکتی ہيں، جس ميں وہ دو صوبوں ميں اتوار کو منعقدہ انتخابات کے بعد گھر چکی ہيں۔ برلن کی مخلوط حکومت ميں شامل سياسی جماعتوں کے سياستدانوں نے کل شام ہی گيند اپوزيشن کی جماعتوں ايس پی ڈی اور گرين پارٹی کی کورٹ ميں پھينکتے ہوئے کہا کہ جن صوبوں ميں ان کی حکومت ہے، وہاں توانائی کے قابل تجديد يعنی قدرتی ذرائع کے زيادہ استعمال پر توجہ دی جائے گی۔
اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ ايس پی ڈی کے قائد زیگمار گابريل کا يہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اتوار کے صوبائی انتخابات، جو جاپان کے ايٹمی حادثے کے بعد جرمنی ميں ہونے والے پہلے انتخابات تھے، دراصل ايٹمی توانائی کے خلاف عوامی استصواب رائے تھے۔ حکومتی حلقوں ميں سے جن کی سوچ يہ تھی کہ ايٹمی بجلی گھروں کی جانچ پڑتال کا اعلان ہی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے کافی ہوگا اور اس کے بعد سب کچھ پہلے ہی کی طرح ہوتا رہے گا، انہیں اب اپنی یہ سوچ اور یہ اميد ختم کرنا ہوگی۔
چانسلر ميرکل کو ايٹمی توانائی سے متعلق پاليسی کو نئی شکل دينے کے سلسلے ميں اپنی پارٹی کے اندر اختلافات کا سامنا ہوگا اور يہی بات ان کی ساتھی حکمران جماعت ايف ڈی پی کے قائد ويسٹر ويلے کے بارے ميں بھی کہی جا سکتی ہے، ليکن فی الحال دونوں کی جگہ لينے والا کوئی نظر نہيں آتا۔
تبصرہ: پیٹر شٹٹسلے / ترجمہ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی