جرمنی: غائب ہوتے ہوئے پلاسٹک تھیلوں کی تاریخ
پلاسٹک بیگ کے استعمال کا دور مسلسل اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔ ماحول پسند ان کے استعمال پر عالمی پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران پلاسٹک بیگز کے کئی انداز دیکھے گئے تھے۔
مصوری یا پریشانی
پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کا شور سبھی ممالک میں مچا ہوا ہے۔ اب یہ تھیلے بھی بتدریج ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ جرمنی میں ان کے متبادل کا استعمال زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں جنوبی جرمن شہر والڈن باخ میں ’میوزیم آف ایوری ڈے‘ میں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں جاری نمائش میں پلاسٹک بیگز اور ان کی تاریخ پر نظر ڈالی گئی ہے۔
رنگوں کی سجاوٹ
سن 1950 کی دہائی میں سامان لانے کے لیے لوگ عموماً ٹوکری یا باسکٹ کا استعمال کرتے تھے۔ سن 1960 کی دہائی میں سہولت کے رویے نے سر اٹھایا اور بڑے شاپنگ مالز نے رنگ برنگے پلاسٹک بیگز متعارف کرا دیے۔ سن 1965 کے بعد سے پلاسٹک کے تھیلے انسانی زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔ کئی خوبصورت تھیلے تحفے لپیٹ کر دینے کے بھی کام آتے تھے۔
ڈیزائنرز کے تیار کردہ تھیلے
کاروباری حلقوں کو محسوس ہوا کہ پلاسٹک بیگز بھی اشتہار بازی کا ذریعہ ہیں۔ کئی کمپنیوں نے اعلی قسم کے پلاسٹک بیگز متعارف کرا دیے۔ پاپ آرٹ کی اہم شخصیت اینڈی وہول نے پلاسٹک کے تھیلے پر ایک گیم بھی پیش کر دیا۔ جرمنی میں مشہور گرافک ڈیزائنر گنٹر فرُوہ ٹرنک (1923-1982) بھی میدان میں آ گئے اور خریداری کے بڑے مرکز آلڈی کے تھیلوں کو ڈیزائن کیا۔
پلاسٹک گراموفون ریکارڈ میں
سن 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں لوئی وتاں، فُرلا یا ہیرمیز جیسے بڑے برانڈ کے تھیلوں کو کوئی دیکھتا بھی نہیں تھا۔ اس کی وجہ گراموفون ریکارڈ میں پلاسٹک کا استعمال بنا۔ رولنگ اسٹون یا کسی بڑے فنکار کے گراموفون ریکارڈ کو اٹھا کر چلنا انوکھا پن اور انفرادیت کی پہچان تصور کیا جاتا تھا۔
پلاسٹک بیگز کا تحفظ: ضرورت کیوں
جرمن شہر والڈن باخ میں ’میوزیم آف ایوری ڈے‘ کے ناظم فرانک لانگ ہیں۔ اس انوکھے میوزیم میں پلاسٹک بیگز کی نمائش کے لیے تھیلوں کو جمع کرنے کو لانگ نے ایک انتہائی مشکل امر قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف بہتر کوالٹی کے بیگز رکھے گئے ہیں کیونکہ کم معیاری پلاسٹک بیگز کے رنگ بتدریج معدوم ہونا شروع کر دیتے ہیں۔
پولی تھین اور پولی پروپیلین وغیرہ وغیرہ
پلاسٹک بیگز کے استعمال میں اضافے نے ماحولیاتی آلودگی کو بڑھانا شروع کر دیا۔ ناقص معیار اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے بیگز ماحول پسندوں کا موضوع بن گیا۔ پلاسٹک تھیلے جانوروں کی موت کا سبب بھی بننے لگے ہیں۔ پلاسٹک اجزا انسانی خوراک کا حصہ بھی بن رہے ہیں اور انسانوں کو ایسی مختلف بیماریوں کا سامنا ہے، جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا تھا۔
مول تول کی بحث
سن 2011 میں لندن منعقدہ ماحولیاتی کانفرنس نے مستقبل میں خریداری کے تھیلوں کو ایک نئی جہت دی۔ دنیا بھر کی پیکنگ انڈسٹری کو ماحول دوستوں کے شور شرابے کے بعد نئی ترجیحات مرتب کرنا پڑیں۔ سیاستدان بھی ماحول دوستوں کی آواز کے ساتھ آواز ملانے لگے۔ جرمنی میں سن 2020 کے بعد پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی لگ جائے گی۔ یورپی یونین بھی سن 2021 سے پلاسٹک بیگز کے استعمال کو محدود کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
یہ ہیں پلاسٹک بیگز
والڈن باخ کے میوزیم میں جاری نمائش کو دیکھنے کے بعد آپ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ ہیں وہ پلاسٹک کے تھیلے جنہیں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میوزیم میں پلاسٹک بیگز کی نمائش کا سلسلہ تین جولائی سن 2020 تک جاری رہے گے۔ اس وقت ایک ہزار مختلف قسم اور رنگوں کے بیگز نمائش میں رکھے گئے ہیں۔ ان ایک ہزار کو پچاس ہزار میں سے منتخب کیا گیا ہے۔