جرمنی، مذہب تبدیل کرنے والے مہاجرین پر حملے، افغان خاتون قتل
7 مئی 2017اڑتیس سالہ مقتولہ افغان مہاجر خاتون چار بچوں کی ماں تھی اور سن 2011 سے جرمنی میں مقیم تھی۔ اس خاتون نے جو پہلے مسلمان تھی، جرمنی آمد کے بعد مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا اور باویریا صوبے کے ایک قصبے پرین میں اپنے کمیونٹی چرچ کی جانب سے مہاجرین کے لیے ایک منصوبے پر کام کر رہی تھی۔
کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ ایک انتیس سالہ افغان پناہ گزین اِس خاتون کو بچوں کے سامنے قتل کرے گا۔
ابتدا میں باویرین پولیس اس قتل کا محرک طے کرنے کے حوالے سے بہت احتیاط سے کام لے رہی تھی۔ قتل کرنے والے افغان مہاجر کو ذہنی مریض سمجھا گیا اور اسے نفسیاتی علاج کے ایک مرکز میں رکھا گیا ہے تاہم تفتیش کار افغان پناہ گزین خاتون کی تبدیلی مذہب کو بھی ایک محرک کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
قتل کا ارتکاب کرنے والے افغان باشندے کو پہلے سے ’ بےحد مذہبی‘ سوچ کا حامل سمجھا جاتا تھا۔ اس خاتون کی آخری رسومات گزشتہ بدھ کو مقامی کمیونٹی چرچ میں ادا کی گئیں۔ رسومات کے دوران چرچ کے پادری نے اس واقعے کے مضمرات کے حوالے سے بات چیت کی۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پادری کارل فریڈرش واکرباتھ نے کہا کہ مقامی مسلمانوں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس مسیحی افغان خاتون کے قتل کے تناظر میں مسلمانوں کے خلاف کوئی مہم شروع نہیں کی جائے گی۔
پناہ گزینوں کی مدد کرنے والے گرجا گھروں کی تنظیموں کے نمائندوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مذہب تبدیل کرنے والے تارکین وطن پر تشدد اور حملوں کے واقعات اکثرو بیشتر رونما ہوتے ہیں۔ فرینکفرٹ کے ایک نواحی قصبے کیلک ہائیم میں ایک مسیحی فلاحی تنظیم’ اوپن ڈور‘ کے ترجمان کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اوپن ڈور نے مذہب تبدیل کرنے والے جن مسیحی تارکینِ وطن سے اس بابت سوال کیا اُن میں 304 ایرانی،263 شامی اور 63 افغان باشندے شامل تھے۔
ان تارکینِ وطن نے بتایا کہ اُن پر حملہ کرنے والوں کا تعلق اُن کے اپنے ملک کے علاوہ دیگر قومیتوں سے بھی تھا۔ ’اوپن ڈور‘ کے مطابق قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اب تک ایسے کسی بھی واقعے میں ملوث کسی بھی شخص کو تاحال سزا نہیں ہوئی۔