’جرمنی مزید مہاجرین کو پناہ دے گا‘
23 اگست 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطالوی وزیر داخلہ اینجیلینو الفانو نے کہا ہے کہ جرمنی نے کہا ہے کہ وہ اٹلی میں موجود سینکڑوں مہاجرین کو لینے کے لیے تیار ہے۔ تئیس اگست بروز منگل الفانو نے مزید کہا کہ برلن حکومت نے ایک مرتبہ پھر فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور مہاجرین کے بحران میں روم حکومت کو مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔
الفانو نے البتہ واضح کیا، ’’ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ گزشتہ برس جرمنی ایک ملین سے زائد مہاجرین کو لے چکا ہے۔ اگر وہ اٹلی میں موجود مزید مہاجرین کو بھی اپنے ملک آنے کی اجازت دیتا ہے تو یہ ایک مثبت پیغام ہو گا کیونکہ اگر یہ جرمنی کر سکتا ہے تو پھر یہ دیگر ممالک بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
یورپ کو درپیش مہاجرین کے اس بحران کے تناظر میں یورپی کمیشن نے ایک منصوبہ بنایا تھا، جس کے تحت یونان اور اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کو ایک کوٹے کے تحت یورپی یونین کی مختلف ریاستوں میں تقسیم کرنا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد دراصل اس بحران سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کو تعاون اور مدد فراہم کرنا تھا۔
واضح رہے کہ زیادہ تر مہاجرین پہلے یا تو یونان پہنچتے ہیں یا پھر اٹلی۔ بعد ازاں یہ مہاجرین وسطی اور شمالی یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں تاہم بلقان کی ریاستوں کی طرف سے سرحدوں کی بندش کے باعث مہاجرین اب یونان اور اٹلی میں ہی پھنس کر رہ چکے ہیں۔
یورپی کمیشن کے کوٹہ سسٹم کے تحت اٹلی میں موجود مہاجرین میں سے چالیس ہزار کو آئندہ دو برسوں کے دوران مختلف یورپی ریاستوں میں منتقل کرنا تھا لیکن اختلافات کے باعث بظاہر یہ ڈیل ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔
الفانو نے کہا، ’’ابھی تک کوٹہ سسٹم ایک حقیقی ناکامی ثابت ہوا ہے۔ لیکن ستمبر کے بعد ہر ماہ سینکڑوں مہاجرین ماہانہ وار جرمنی جا سکیں گے۔ اگر جرمنی کو مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا تو میرے خیال میں دیگر رکن ریاستوں کو بھی کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
سن دو ہزار چودہ سے اب تک اب تک سمندری راستوں سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد چار لاکھ بیس ہزار بنتی ہے۔ اسی طرح بحیرہ ایجئین سے مہاجرین پہلے یونان پہنچتے ہیں۔ اٹلی کی طرح یونان میں بھی مہاجرین کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔
اس منصوبے کے تحت اریتریا، شام اور عراق کے باشندوں کو ہی اٹلی سے یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں منتقل کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ شمالی افریقی ممالک سے اٹلی پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین اور تارکین وطن اس نظام سے محروم رہیں گے۔
ایک اندازے کے مطابق رواں برس کے پہلے سات ماہ کے دوران سات سو ستاسی شامی، چھ سو چھیاسی عراقی جبکہ تقریبا چار ہزار اریتریا کے شہری اٹلی پہنچے تھے۔