1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی مسلمانوں کا گھر بن سکتا ہے، فراؤکے پیٹری

عاطف بلوچ ڈی پی اے
1 اکتوبر 2017

مہاجرت اور اسلام مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی سابق شریک چیئر پرسن فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ مسلمان جرمنی کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں اپنے مذہبی عقائد اور سیاسی مقاصد میں تفریق واضح کرنا ہو گی۔

https://p.dw.com/p/2l2vC
Frauke Petry
تصویر: Reuters/F.Bensch

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن روزنامے ویلٹ ام زونٹاگ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلام اور مہاجرت مخالف نعرے بازی کی بدولت حالیہ جرمن وفاقی انتخابات میں تیسری سے سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت کی سابق شریک چیئر پرسن فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ مسلمان جرمنی کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں۔ دائیں بازو کے نظریات کی حامل اس خاتون سیاستدان نے البتہ کہا کہ اس کے لیے جرمنی میں آباد مسلمانوں کو اپنے مذہب اور سیاست کو الگ ہی رکھنا پڑے گا۔

اے ایف ڈی سے مہاجرین کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟

AfD کی شریک سربراہ پارٹی چھوڑ دیں گی

اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق

ویلٹ ام زونٹاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بیالس سالہ پیٹری نے واضح کیا کہ اگر مسلم کمیونٹی یہ قبول کرتی ہے کہ مذہب ان کا نجی معاملہ ہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی مطالبہ نہیں کیا جائے گا تو مسلمان جرمنی میں خوشی سے آباد ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی نے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی ہے اور انہیں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ فراؤکے پیٹری کے مطابق ’پولیٹیکل اسلام‘ جرمن معاشرے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ مہاجرین کے بحران کے بعد یورپ اور بالخصوص جرمنی میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں جرمنی میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ شدت پسندانہ سوچ کو کس طرح تبدیل کیا جائے۔ اس صورتحال میں دائیں بازو کے کٹر نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں نے اسلام اور مہاجرت مخالف بیانیہ استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ووٹ بینک کو بڑھایا ہے۔ سن دو ہزار پندرہ کے اعدادوشمار کے مطابق جرمنی کی 82.3 ملین مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 4.5 ملین ہے۔

چوبیس ستمبر کے جرمن الیکشن میں بھی آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) نے اس نعرے کے ساتھ ووٹرز کو کامیاب طریقے سے اپنی طرف راغب کیا۔ یوں سن دو ہزار تیرہ میں معرض وجود میں آنے والی یہ پارٹی پہلی مرتبہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ تاہم اس الیکشن میں کامیابی کے فوری بعد ہی فراؤکے پیٹری نے اس پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ اس پیشرفت کو اس پارٹی میں قیادت کی لڑائی کا نتیجہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ فراؤ کے پیٹری اپنے کٹر نظریات کے باوجود اے ایف ڈی کی موجودہ قیادت کے مقابلے میں زیادہ ’روشن خیال اور لبرل‘ قرار دی جا سکتی ہیں۔ اے ایف ڈی سے علیحدگی کے بعد پیٹری ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کے بارے میں پرعزم ہیں۔ ویلٹ ام زونٹاگ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ان کی سیاسی پارٹی میں دائیں بازو نظریات کے حامل انقلابی قسم کے افراد شامل نہیں ہوں گے اور ان کی نئی تحریک اسرائیل نواز ہو گی۔