1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Salafisten in Bonn

14 جنوری 2013

جرمنی ميں سلفی رجحان والے مسلمانوں ميں انتہاپسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ شہر بون سلفيوں ک ايک خاص گڑھ ہے۔

https://p.dw.com/p/17JY6
تصویر: dapd

خود کو سلفی کہلوانے والے مسلمان جرمنی ميں بھی موجود ہيں اور ان کی تعداد کے بارے ميں صحيح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ شہر بون کے ايک ايسے ہی سلفی نے ڈوئچے ويلے کی خاتون صحافی سے کہا: ’’ہاں ہم انتہا پسند ہيں۔‘‘ 20 سالہ نوجوان ابو دجانہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ کسی غير عورت کو نہ چھونے کے اسلامی حکم کی وجہ سے خاتون صحافی سے مصافحہ نہيں کر سکتا۔ ليکن اس نے کہا کہ مغربی ممالک ميں يہ بات سمجھی جانی چاہيے کہ اس کا مطلب صرف اپنے مذہب پر عمل ہے، کسی خاتون کی توہين نہيں۔

بون کے ايک کيفے ميں ڈوئچے ويلے نے دو سلفيوں سے انٹرويو کيا۔ ايک کا نام ابو ناجی اور دوسرے کا ابو دجانہ ہے جس کے پاس ايک آئی فون بھی ہے۔ انٹرويو سے پہلے ہی جرمنی کے آئينی تحفظ کے ايک اہلکار نے ڈوئچے ويلے کی خاتون صحافی کو خبردار کر ديا تھا کہ دونوں سلفی واعظ ہيں اور انتہائی خطرناک۔ اوسنا بروک يونيورسٹی کے ايک ماہر نے کہا کہ دونوں سلفی واعظ نہايت قدامت پسند تو ہيں ليکن خطرناک نہيں۔ انہوں نے کہا کہ سلفی اسلام کی قد‌يم اور ابتدائی شکل کے حامی ہيں جو پيغمبر اسلام کے زمانے سے قريب ترين دور تھا۔ بون ميں رہنے والے ابراہيم ناجی اسے ’حقيقی اسلام‘ کہتے ہيں۔ وہ خود کو سلفی کہلوانے کے مخالف ہيں بلکہ صرف مسلمان کہلوانا چاہتے ہيں۔

جرمنی ميں ايک سلفی مبلغ منظر عام پر
جرمنی ميں ايک سلفی مبلغ منظر عام پرتصویر: dapd

ابو دجانہ نے بہت سی باتوں کو ميڈيا اور سياست کی طرف سے منصوبہ بندی سے کيا جانے والا پروپيگنڈا قرار ديا۔ 18 سال کی عمر ميں غزہ سے جرمنی آنے والے ابودجانہ نے بتايا کہ اُس نے غزہ ميں جرمنی کی اعلٰی تکنيک اور عمدہ نظم و ضبط کے خواب ديکھے تھے۔ ابو دجانہ ايک تعليم يافتہ نوجوان ہے۔ وہ يونيورسٹی کا طالبعلم ہے۔ اس کی زبان فصيح اور رواں ہے۔ ابو دجانہ نے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ جرمنی ميں شريعت نافذ ہو ليکن يہ ابھی ممکن نہيں ہے۔ اس نے کہا کہ شريعت کا مطلب يہ ہرگز نہيں کہ فوراً ہاتھ کاٹے جائيں گے بلکہ بہت سی شرائط اور قانونی ضوابط ہيں۔ اسلام کا مطلب سزائيں ہی نہيں جيسا کہ اکثر بے سمجھی ميں خيال کيا جاتا ہے۔

جرمنی کے آئينی تحفظ کے محکمے کے اہلکاروں کا انداز ہے کہ ملک ميں سلفيوں کی تعداد 3800 ہے۔ ان ميں سے صرف ايک اقليت ہی طاقت کے استعمال کا رجحان رکھتی ہے۔ ليکن سياسی رجحان کے تشدد ميں بدل جانے کا عمل آسانی سے طے پا جاتا ہے اور آئينی تحفظ کے محکمے کو اس پر فکر ہے۔

اوسنا بروک يونيورسٹی کے ماہر نے کہا کہ سلفيوں ميں سے کٹر عقيدے والی مسلمان خواتين نقاب پہنتی ہيں اور مرد لمبے کھلے لباس پہنتے ہيں۔ وہ دوسروں سے الگ تھلگ ايک متوازی معاشرے ميں رہتے ہيں۔

کچھ سلفی ايک عام جگہ پر نماز پڑھتے ہوئے
کچھ سلفی ايک عام جگہ پر نماز پڑھتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

ابو ناجی اور ابو دجانہ ’دعوہ’ دينے کے قائل ہيں، يعنی اسلام کی طرف دعوت۔ ابو ناجی نے کہا کہ انہيں روزانہ کئی سو ٹيلی فون کاليں موصول ہوتی ہيں، مثلاً پریشان مسلمان طالبات کی طرف سے جو اسکول کی پيراکی کی لازمی کلاسوں ميں حصہ نہيں لينا چاہتيں۔ ان سے وہ يہ کہتے ہيں کہ اسکول کے پرنسپل کو قرآن کا جرمن ترجمہ تحفے ميں ديں اور صبر کريں۔

بون کی ايک چھوٹی اور سادی سی مسجد ميں ڈوئچے ويلے کی صحافی کی ملاقات مسلمان خواتين سے ہوتی ہے جو انہيں بھی اسلام کی دعوت ديتی ہيں۔ ايک طالبہ نے کہا کہ اسکول يا باہر اسلامی لباس کی وجہ سے جو مشکلات اسے پيش آ رہی ہيں ان کا اللہ اچھا صلہ دے گا، اگر وہ پکی رہيں۔

اوسنا بروک يونيورسٹی کے ماہر نے کہا کہ زيادہ تر نوجوان مسلمان سلفيوں کی طرف راغب ہو رہے ہيں جن ميں سے کچھ کے تشدد کی طرف بڑھنے اور القاعدہ کے دہشت گردی کے پروپيگنڈے کی طرف مائل ہونے کا خطرہ ہے۔ ليکن ابو ناجی اور ابو دجانہ تشدد کی حمايت نہیں کرتے۔ ان کے بارے ميں زيادہ سے زيادہ يہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ تشدد کی کھل کر مخالفت نہيں کرتے۔ ابو دجانہ نے کہا کہ ہر گروپ ميں چند انتہاپسند بھی ہوتے ہيں۔

آخر ميں ابو ناجی نے ڈوئچے ويلے کی خاتون صحافی کو قرآن کا ترجمہ ديتے ہوئے کہا کہ انہيں اللہ کا آخری پيغام ديتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے۔

N.Conrad,sas/F.Taube,ij