جرمنی: مکالمت کی حکومتی کوششیں، ناراض مسلمان
13 مئی 2010جرمن حکومت کے زیرِ اہتمام پہلی ’’اسلام کانفرنس‘‘ (DIK) سن 2006ء میں اُس وقت کے وزیر داخلہ وولف گانگ شوئبلے کی تحریک پر منعقد کی گئی تھی۔ اِس کا مقصد جرمن سیاستدانوں اور جرمنی میں بسنے والے مسلمانوں کے نمائندوں کو مل بیٹھنے اور متنازعہ امور پر تبادلہء خیال کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اِن امور میں سر پر اسکارف اوڑھنا یا پھر اسکولوں میں اسلام کی تعلیم وغیرہ شامل تھے۔
جرمن مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم سینٹرل کونسل آف مسلمز اِن جرمنی (ZMD) نے بدھ کو اِس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان یہ کہتے ہوئے کیا کہ اِس اجتماع کا کوئی ’ٹھوس مقصد‘ نہیں ہے۔ اِس تنظیم کے سربراہ آکسیل ایوب کوہلر نے اپنی تنظیم کی وَیب سائیٹ پر ایک بیان میں مزید کہا کہ یہ اجتماع مسلمانوں، سیاستدانوں اور جرمن عوام کے درمیان پیدا ہونے والے فوری نوعیت کے سماجی مسائل اور خدشات کو دور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔کوہلر کا کہنا تھا کہ اپنی موجودہ شکل میں یہ اجتماع محض بحث مباحثے کا ایک فورم ہے، جس میں ملک میں مسلمانوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت کو مناسب طریقے سے موضوع ہی نہیں بنایا گیا۔
ZMD ملک کی تین سو مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کی مرکزی تنظیم ہے اور پانچ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایوب کوہلر یہ بھی کہتے ہیں کہ جرمنی میں دو ہزار پانچ سو مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کی نصف تعداد کو اِس ’’اسلام کانفرنس‘‘ میں سرے سے نمائندگی ہی حاصل نہیں ہے۔
جرمنی میں مسلمانوں کی چار بڑی تنظیموں میں سے ایک تنظیم ’’اسلام کونسل‘‘ ہے، جسے ’’اسلام کانفرنس‘‘ منظم کرنے والے وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر پہلے ہی اِس اجتماع میں شریک کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ ’’اسلام کونسل‘‘ مختلف مسلمان تنظیموں کی مرکزی تنظیم ہے اور جرمن حکومت کو اِس مرکزی تنظیم پر نہیں بلکہ اِس میں شامل ایک تنظیم ’’ملی گوروش‘‘ پر اعتراض ہے، جس کے خلاف ٹیکس چوری، کالے دھن کو قانونی شکل دینے اور جرائم پیشہ تنظیم تشکیل دینے کے الزامات کے تحت تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ZMD نے ’’اسلام کونسل‘‘ کی شرکت معطل کرنے پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور اِسے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔
وزارتِ داخلہ نے سینٹرل کونسل آف مسلمز اِن جرمنی کی طرف سے بائیکاٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی وزیر داخلہ ڈے میزیئر نے کہا کہ اِس اہم اجتماع کو، جو پیر سترہ مئی سے دارالحکومت برلن میں شروع ہو گا، ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور یہ اجتماع اب ZMD کے بغیر بھی منعقد کیا جائے گا۔
اپوزیشن گرین پارٹی کے پارلیمانی ناظم الامور فولکر بیک نے کہا کہ ’یہ دوسری اسلام کانفرنس اپنی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ہی ناکام ہو چکی ہے۔‘ بیک کا کہنا تھا کہ اگر ڈے میزیئر ’ٹھوس اور عملی کام‘ انجام دینے کے خواہاں ہیں تو اُنہیں ایک جانب جرمنی میں آباد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کے اُن نمائندوں کے ساتھ بھی مل کر کام کرنا چاہیے، جن کے ساتھ معاملہ کرنا آسان نہیں ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ کو اُن موضوعات پر بھی بات ضرور کرنی چاہیے، جن کو یہ مسلم تنظیمیں بحث طلب خیال کرتی ہیں۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت:عاطف بلوچ