جرمنی میں اسلام سے خوف اور بداعتمادی میں ڈرامائی اضافہ
16 مارچ 2018رُوہر وادی کو جرمنی کا صنعتی مرکز اور ’میلٹنگ پاٹ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں غیرملکی خصوصاﹰ ترک نژاد افراد کی بڑی تعداد آباد ہے، جو ان صنعتوں میں کام کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد تارکین وطن کمیونٹیز ہی نے جرمنی کے کسی بھی دوسرے علاقے سے بڑھ کر یہاں کے صنعتی اداروں کا رخ کیا۔ یہاں کوئلے اور فولاد کی صنعتیں ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں اور ہزاروں ترک نژاد افراد آباد ہیں۔ تاہم غیرملکیوں کی بڑی تعداد کے حامل اس علاقے میں اب اسلام سے خوف اور مختلف برادریوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جمعرات کے روز بروسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
مسجد پر بم حملے سے مثال قائم کرنا چاہتا تھا، ملزم کا اعتراف
جرمن مسلمانوں پر پُرتشدد حملوں میں اضافہ
جرمنی: مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اضافہ
اس وادی کے ڈوئس برگ شہر میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یہ شہر جسے A40 موٹر وے دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، یہاں شہر کا جنوبی حصہ صاف ستھرا اور عمدہ دکھائی دیتے ہیں اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز ہے، جب کہ شمالی حصے گندہ ہے اور وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی نسبتا ناقص ہے۔
ایک ترک نژاد خاتون دکان دار گومیز کے مطابق، ’’ہماری اس صورت حال کو ایک طرح کے جرم کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ ہم دیکھنے میں جرمن شہریوں کی طرح نہیں۔ ہمارے علاقے کو نوگو ایریا سمجھا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میں یہاں پیدا ہوئی ہوں، میرے بچے یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ میں جرمن ہوں۔‘‘
مگر یہ بداعتمادی بہت گہری ہے۔ اس شہر کا شمالی حصہ غیرملکیوں پس منظر کے حامل شہریوں اور جنوبی حصہ جرمنوں کی اکثریت کا حامل ہے۔ تاہم معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔ ترکوں کی نگاہ میں، رومانیہ اور بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے خطرہ ہیں، رومانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کے لیے شامی مہاجرین سے خطرات ہیں، جب کہ اس شہر کے باسی کے مطابق یہ سب امریکیوں کی وجہ سے شروع ہوا۔ اس علاقے میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی ’نفرت انگیزی سے متعلق بیانیوں کو اسلام کا چہرہ‘ بنا کر پیش کر رہی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رُوہر وادی کے صرف 37 فیصد باشندوں کی نگاہ میں اسلام کا جرمنی سے کوئی تعلق ہے۔ سن 2015ء میں اس علاقے میں اب بہت کم لوگ مسلمانوں کو دوست سمجھتے ہیں یا ’اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح کا ایک مذہب‘ سمجھتے ہیں۔ یہاں کے باسیوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ’اسلام خواتین کے ساتھ عدم مساوات‘ کا سبق دیتا ہے۔
اس مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے جرمن باشندوں کی تعداد میں بہت بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی جرمن معاشرے میں انضمام کی کوششوں میں تیزی لانا چاہیے۔ یہ تعداد دو برس قبل 33 فیصد تھی جو اب کم ہر کر فقط 18 فیصد رہ گئی ہے۔
اس علاقے میں رہنے والے 49 فیصد افراد کا ماننا ہے کہ جرمن شہریوں اور مسلمانوں کا مل جل کر رہنا ’کسی حد تک مشکل‘ ہے جب کہ ماضی میں یہاں کے رہائشیوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی تھی کہ مسلمانوں اور جرمنوں کا ساتھ رہنا کوئی ’پیچیدہ معاملہ‘ نہیں۔