جرمنی میں اسلاموفوبیا بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے، رپورٹ
30 جون 2023جرمن معاشرے کے ایک بڑے حصے میں مسلمان مخالف رویہ پایا جاتا ہے۔ اس کے مظاہر روز مرہ کی زندگی میں دکھائی دیتے ہیں۔ جرمنی میں ہر دو میں سے ایک شخص مسلمان مخالف بیانات سے اتفاق کرتا ہے۔
یہ نتائج جمعرات 29 جون کو مسلم دشمنی کے بارے میں آزاد ماہرین کے پینل (یو ای ایم) نے اپنی حتمی رپورٹ ’’اسلاموفوبیا۔جرمن بیلنس شیٹ‘‘ میں شائع کیے ہیں۔
ماہرین کی یہ کونسل سن 2020 میں ہناؤ میں نسل پرستانہ حملے کے بعد قائم کی گئی تھی اور اسے اسلاموفوبیا پر تحقیق کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نو مصنفین نے سائنسی مطالعات، جرائم کے بارے میں پولیس کے اعداد و شمار اور امتیازی سلوک کے خلاف ایجنسیوں، مشاورتی مراکز اور این جی اوز کی طرف سے مسلم مخالف واقعات کی دستاویزات کی بنیاد پر جرمن معاشرے کا جائزہ لیا ہے۔
امتیازی سلوک جو تشدد کی حد تک پہنچ چکا ہے
یو ای ایم نے اسلامو فوبیا کی تعریف یوں کی ہے کہ یہ ’’مسلمانوں اور مسلمان سمجھے جانے والے افراد کے ساتھ بحیثیت مجموعی، بڑی حد تک ناقابل تغیر، پسماندہ اور خطرناک رجحانات کو جوڑے جانا ہے۔‘‘ اس طرح ، ''شعوری یا لاشعوری طور پر ایک اجنبیت یا یہاں تک کہ دشمنی‘‘ پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کثیرجہتی معاشرتی اخراج اور امتیازی رویہ جنم لیتا ہے جو کبھی تشدد تک بھی پہنچ جاتا ہے۔
سن 2017 کے بعد سے پولیس نے جرائم کے اعداد و شمار میں اسلاموفوبیا سے متعلقہ جرائم کو الگ سے ریکارڈ کرنا شروع کر رکھا ہے۔ اس کے بعد سے توہین، اشتعال انگیزی اور دھمکیوں، املاک کو نقصان پہنچانے اور خطرناک سطح تک جسمانی نقصان پہنچانے کے سالانہ 700 تا 1000 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ جرمن معاشرے میں مسلمانوں کو [غیر مسلموں کی طرف سے] ’’سماجی انضمام کی صلاحیت سے محروم‘‘ سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ان میں شعوری طور پر فاصلہ اختیار کرنے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رابطے نہ رکھنے کا رجحان ہے۔
حجاب پہننے والی مسلم خواتین بتاتی ہیں کہ وہ اکثر عوامی سطح پر دشمنی کا نشانہ بنتی ہیں۔ مسلمان مردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تعصب پایا جاتا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تشدد، انتہا پسندی اور پدرشاہی اقدار سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں ’تقویٰ‘ کو بنیاد پرستی کے ساتھ جوڑا جانا خاص طور پر پریشان کن ہے۔ جرمنی میں مسلمانوں کے لیے مذہبی آزادی کے بنیادی حق پر پابندیوں کی وکالت بھی پائی جاتی ہے اور انہیں معاشرے میں مساوی شرکت کے حق سے محروم کرنے پر بھی آمادگی موجود ہے۔
سیاسی جماعتوں کی ناکامی
اس رپورٹ میں جرمنی کی سیاسی جماعتوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی جرمن پارلیمان میں انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کا ’’واضح طور پر مسلم مخالف پروگرام‘‘ ہے۔ کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور ریاست باویریا کی علاقائی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کی قیادت میں دائیں بازو کے مرکزی بلاک میں بھی ''مسلمانوں کے خلاف پوشیدہ دشمنی کا رجحان ہے جو ان کی جانب سے اسلام کو جرمن قوم اور ثقافت کا حصہ قرار دینے میں غیر واضح موقف‘‘ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ برسراقتدار بائیں بازو کی جماعت سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی)، گرین پارٹی اور نیو لبرل فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی) بھی ادارہ جاتی نسل پرستی کا تدارک کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ صرف بائیں بازو کی پارٹی ڈی لنکے ہی ایک قابل ذکر استثنیٰ ہے۔
جرمنی کی وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے رپورٹ کے نتائج کو ’تلخ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جرمنی میں بسنے والے مسلمان اور مسلم پس منظر رکھنے والے تقریبا 5.5 ملین افراد میں سے زیادہ تر جرمن شہری ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’’مسلم طرز زندگی جرمنی کا فطری حصہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے متنوع معاشرے میں تمام لوگوں کو یکساں مواقع اور حقوق حاصل ہوں۔‘‘
ماہرین نے اس حوالے سے متعدد سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ پہلی تجویز یہ ہے کہ ملک کے تمام لوگ اور تنظیمیں مسلمانوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے تجویز دی کہ مسلمانوں کے خلاف دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک وفاقی کمشنر کی تقرری کی جائے اور ماہرین کی ایک مستقل کونسل قائم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس حوالے سے شکایات درج کرنے اور ریکارڈ مرتب کرنے والے اداروں کے قیام اور توسیع میں مزید سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔
درسی کتب پر نظر ثانی
ماہرین نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ جرمن حکومت تمام ریاستی اداروں میں ’’مسلمانوں اور مسلم شناخت سے متعلقہ‘‘ لوگوں کی شرکت کو فروغ دینے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کرے، جس کے مقررہ اہداف ہوں، اور ساتھ میں تعلقات عامہ کی مہموں میں سرمایہ کاری کی جائے۔ علاوہ ازیں اساتذہ، ماہرین تعلیم اور پولیس افسران کے ساتھ ساتھ عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا اور ثقافتی اداروں کے ملازمین کو بھی اس بارے میں مزید تربیت فراہم کی جانا چاہیے۔
سفارشات کے مطابق سکولوں میں مسلمانوں کے خلاف دشمنی کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی وزرائے ثقافت کی کانفرنس میں ماہرین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسلم مخالف مواد کو ہٹانے کے لیے نصاب اور نصابی کتب پر بھی نظر ثانی کریں۔
مثال کے طور پر جرمن زبان میں بنائی گئی فلموں میں اسلام کی منظر کشی سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے تقریبا 90 فیصد میں مسلمانوں کے بارے منفی تعصب پایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، "جن فلموں میں دہشت گردانہ حملوں، بنیاد پرستی، جنگوں اور خواتین پر جبر کے بارے میں کہانیوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، ان میں اسلام کے موضوعات کو چند تنازعات اور بحرانی موضوعات تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ جرمن زبان کی تخلیقات میں مسلم طرز زندگی کا تنوع بڑی حد نہیں دکھایا جاتا۔
جرمن اسلام کانفرنس، جس نے یو ای ایم کے کام کی مالی اعانت کی، اب ماہرین کے پینل کی حتمی رپورٹ پر غور کرے گی اور موسم خزاں میں ایک ماہرین کی کانفرنس بلانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
یہ مضمون پہلے جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔
زابینے کنکارٹز (ش ح / ع ا)