جرمنی میں اسلامی بینکاری
7 مئی 2009اسلام ميں سود کا کاروبار مکمل طور پر منع ہے ۔ ليکن اس کے ساتھ ہی اقتصادی سرگرميوں ميں حصہ لينا بھی فرض قرارديا گيا ہے ۔ دنيا بھر ميں اسلامی ضوابط سے مطابقت رکھنے والے مالياتی کاروبار ميں اضافہ ہورہا ہے اور موجودہ مالياتی بحران کے حوالے سے کڑے ضوابط کے تحت اسلامی مالياتی مصنوعات کو بہت محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود جرمنی ميں اسلامی بنکاری ابھی بہت کم ہے۔
جرمنی ميں کامرس بينک کی ايک ذيلی شاخ Cominvest نے سن 2000ميں جرمنی ميں پہلی مرتبہ اسلامی اصولوں کے مطابق شئيرز يا حصص کی پيشکش کی تھی ليکن کامرس بينک کا يہ تجربہ سن 2005 کے آخر ميں ناکام ہوگيا۔ اس کی ايک وجہ يہ تھی کہ اسلامی قوانين کے مطابق حصص کے اس کاروبار کی صحيح طرح سے تشہير نہيں کی گئ ۔ ايک مشہور کمپنی کے جائزے کے مطابق جرمنی ميں صرف پانچ فيصد مسلمان ايسی مالياتی مصنوعات ميں سرمايہ کاری کرتے ہيں، جو بالکل اسلام کے مطابق ہوتی ہيں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ اسلامی مالياتی کاروبار کی پيشکشوں کی کمی اور اور اس بارے ميں ناکافی معلومات ہيں ۔
فواد جرمنی کے مشہور شہر کولون کے مرکزی حصے ميں ايک ريستوران کے مالک ہيں ۔ وہ اسلامی قوانين ، يعنی شريعت کو بہت اہميت ديتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے پاس پيسے ہوتے تو وہ انہيں کسی ايسے اسلامی بينک ميں لگاتے جس کے بارے ميں انہیں معلوم ہوتا کہ وہ سؤر کے گوشت، اسلحے يا شراب کے کاروبار ميں ملوث نہيں ہے۔
فواد اسلامی اصولوں کے مطابق پيش کی جانے والی ايسی مالیاتی مصنوعات ميں بھی پيسہ لگانا چاہتے ہيں جو کسی جرمن مالی ادارے کی طرف سے پيش کی جارہی ہوں ۔ ليکن انہيں ابھی تک يہ علم نہيں ہے کہ کيا جرمنی ميں اس قسم کی کوئ پيشکش موجود ہے يا نہيں ۔
اپنے مذہب پر عمل کرنے والے مسلمان ، پيسہ لگانے کے ان بہت سے امکانات کا استعمال نہيں کرسکتے جو کلاسيکل بنکاری کاروبار کا لازمی حصہ ہيں ، کيونکہ يہ سب کاروبار سود کے نظام پر چلتا ہے اور سود مسلمانوں کے لئے بالکل حرام يا منع ہے ۔ نہ صرف يہ، بلکہ عام يا روايتی بيمے بھی شريعت کے خلاف ہيں۔
اسلام شئيرز کے کاروبار کی اجازت تو ديتا ہے ليکن اس کے لئے بڑے سخت ضابطے ہيں ۔ مثال کے طور پر اگر کوئ کمپنی يا فرم شراب، سؤر کے گوشت ، تمباکو، جوئے ، پورنوگرافی يا فحش تصاوير يا جوئے کے کاروبار ميں شريک ہے تو اس کے شئيرز خريدنے کی اجازت مسلمانوں کو نہيں ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام سے مطابقت رکھنے والی مصنوعات کو کئ اور معياروں پر بھی پورا اترنا چاہئے ۔
ميشائيل صالح گاسنر ، اسلامی مالياتی مصنوعات کے ماہر ہيں اور وہ سن 2008 سے جرمنی کی مسلم کونسل کے اس سرٹيفکيٹ پروگرام کے رابطہ اہلکار ہيں جو جرمن اداروں کی مالياتی مصنوعات کی جانچ پڑتال کے بعد يہ سرٹيفکيٹ جاری کرتا ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہيں يانہيں ۔ انہوں نے کہا ،
اسلام ميں نفع کمانے کے لئے يہ لازمی ہے کہ جس کاروبار ميں پيسہ لگايا جائے اس ميں نفع کے ساتھ ساتھ نقصان کا انديشہ بھی ہو ۔ نفع اور نقصان کی بنياد پر کسی فرم ميں شراکت کی جاسکتی ہے ، کرايہ ليا جاسکتا ہے ، قسطوں پر خريدوفروخت کی جاسکتی ہے ۔ ليکن صرف پيسے کے بدلے ميں پيسہ قرض ليا يا ديا نہيں جاسکتا ۔ ارسطو نے بھی کہا تھا کہ پيسے سے پيسہ نہيں بنايا جانا چاہئے ۔ پيسے کو پہلے کسی فائدے مند شاخ ميں لگانا چاہئے اور پورے اقتصادی نظام ميں اسی کی کمی ہے۔
جرمن مسلم کونسل، مالياتی مصنوعات کے اسلامی اصولوں کے مطابق ہونے کی جانچ پرکھ کر کے ان کے جائز اور حلال ہونے کے جو سرٹيفکيٹ جاری کرتی ہے اس کا ايک مقصد جرمن مالياتی اداروں کو اسلامی بنکاری ميں حصہ لينے کی ترغيب دينا بھی ہے ۔
مالياتی بحران اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے عدم تحفظ کی وجہ سے جرمنی ميں محفوظ سرمايہ کاری کی ضرورت ميں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ اس صورتحال ميں اسلامک بينکنگ فائدہ مند ہوگی ۔ اس کے باوجود جرمن مالياتی ادارے اس سلسلے ميں ابھی بہت پنچھے ہيں ۔
صالح گاسنر کا کہنا ہے کہ برطانيہ ميں برمنگہم ميں اسلامی بينک ہے جس کی شاخيں لندن اور مانچسٹر ميں بھی ہيں ۔ فرانس نے قوانين ميں ترميم کی ہے تاکہ انگلينڈ کی طرح وہاں بھی عرب سرمايہ کاروں کو پيسہ لگانے کی دعوت دی جا سکے ۔
بڑے مالياتی ادارے اسلامی اصولوں کے مطابق سرمايہ کاری کا بڑا کاروبار خاص طور سے مالدار عرب ممالک ميں کررہے ہيں ۔ ان ميں دوئچے بينک بھی شامل ہے ۔ وہ مشرق وسطی اور ايشيا ميں امير افراد پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے ۔جرمنی کے چھوٹے يا بڑے سرمايہ داروں کی اسلامی سرمايہ کاری پر دوئچے بينک کی توجہ نہيں ہے ۔
صرف Allianz Global Investors سن 2008 سے مسلم سرمايہ کاروں کے لئے جرمنی ميں حصص يا شئيرزکے دو نئے پيکيجز کی پيشکش کررہا ہے ۔ ان کا کاروبار اسلامی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔
جرمنی ميں کولون کے سيونگ بينک کے ترجمان ہيل من نے کہا کہ ان کا سيونگ بينک خود تو ايسی مالياتی مصنوعات پيش نہيں کرتا ليکن وہ ايسی پيشکشوں تک رسائ کی سہولت فراہم کرتا ہے جو شريعت کے مطابق ہوں۔
ہيل من کا کہنا ہے کہ جرمن بينک اس لئے اسلامی بنکارں ميں پس و پيش سے کام لے رہے ہيں کيونکہ اس کے اخراجات زيادہ ہيں ۔ اس کی مستقل جانچ پر کافی رقم خرچ ہوتی ہے کہ حصص کا کاروبار شريعت کے مطابق کام کررہا ہے يا نہيں ۔ ايک بورڈ قائم کرنا پڑتا ہے جو اس کی مستقل نگرانی کرتا ہے۔
ليکن يہ بھی ذرست ہے کہ بہت سے جرمن بينک اس روايتی بنکاری نظام سے ہٹ کر سوچنا نہيں چاہتے جس کی بنياد سودی کاروبار ہے۔