جرمنی میں اسلامیات کی تعلیم، مسلم تنظیمیں ناخوش
28 نومبر 2013جرمن حکومت ان مراکز پر سالانہ تقریباً بیس ملین یورو خرچ کر رہی ہے۔ میونسٹر میں زیرِ تعلیم طلبہ میں 33 سالہ جرمن نوجوان ڈانیل گارسکے بھی شامل ہے، جس نے ابھی تین سال پہلے اسلام قبول کیا اور اب گزشتہ ایک برس سے اس مرکز میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اس مرکز میں زیادہ تر طالب علم مسلمان ہیں جبکہ گارسکے کی طرح کے نو مسلم طلبہ کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
وہ کیا چیز تھی، جس نے گارسکے کو اس مرکز میں تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب کیا، اس سوال کے جواب میں اُس کا کہنا تھا: ’’میرے لیے اولین محرک اپنی تعلیم و تربیت کو آگے بڑھانا اور اپنی علم کی پیاس بجھانا ہے۔ یہاں حاصل کردہ علم کی مدد سے مَیں بعد میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں معاشرے میں اسلام کی ایک مختلف تصویر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
گارسکے کا خواب ہے کہ وہ اسی یونیورسٹی میں رہے، یہیں تحقیق کرے اور پھر پڑھائے۔ اس طرح کے مراکز میں تعلیم و تربیت کا ایک مقصد مساجد کے اماموں کی بھی ایک نئی کھیپ سامنے لانا ہے کیونکہ اب تک صورت حال یہ ہے کہ جرمنی میں زیادہ تر مسلمان اپنی اپنی مساجد میں امام بھی اپنے اپنے ممالک سے لے کر آتے ہیں۔
ڈانیل گارسکے کو یقین ہے کہ جرمنی میں تعلیم و تربیت پانے والے اماموں کو یہاں کی مساجد میں کام کرنے کا بھی موقع مل سکے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا کیونکہ مسلمانوں کی چند ایک تنظیمیں ان مراکز کو ناقدانہ نظروں سے دیکھتی ہیں۔ چاروں بڑی مسلمان تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ جس طرح سے مسیحیت کی تعلیم کے نصاب میں کلیسائی تنظیموں سے مشورے لیے جاتے ہیں، اسی طرح اسلامیات کے ان مراکز کا نصاب وغیرہ تیار کرتے وقت اُنہیں بھی مشوروں میں شامل کیا جائے۔ تاہم آئینی تحفظ کا وفاقی جرمن محکمہ اس کی اجازت نہیں دے رہا کیونکہ اُسے ان تنظیموں پر بنیاد پرست ہونے کا شبہ ہے۔ جرمن سیاستدان یہ نہیں چاہتے کہ خصوصاً اسلامیات کے اساتذہ اور اماموں کی تعلیم میں مسلمان تنظیمیں کوئی کردار ادا کریں کیونکہ یہی ان مراکز کے قیام کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کو میونسٹر کے مرکز کے حوالے سے یہ اعتراض ہے کہ یہاں دی جانے والی تعلیم میں اس بات کو کم موضوع بنایا جاتا ہے کہ اسلام میں کن باتوں کی اجازت ہے اور کون کون سی چیزیں ممنوع ہیں۔ تاہم اس مرکز کے بیالیس سالہ انچارج مہند خورشید اس مرکز میں قرآن کی کٹر یا بنیاد پرستانہ تشریح کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کو مذہب کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال کرنی چاہیے: ’’دینیات کا کام عقلی بنیادوں پر مذہب کی بنیاد کو واضح کرنا ہے۔ یہاں معاملہ سوچے سمجھے بغیر کسی چیز کو یہ کہہ کر قبول کر لینے کا نہیں ہے کہ میں تو ایسے ہی کروں گا کیونکہ کتابوں میں ایسا لکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کوئی چیز کیوں لکھی ہے، خدا انسان سے کیا چاہتا ہے اور زندگی کے ساتھ مذہب کا تعلق کیا ہے۔‘‘
میونسٹر میں زیر تعلیم طلبہ میں 25 سالہ مریم سروری بھی شامل ہے، جو بعد میں اسلامیات پڑھانا چاہتی ہے۔ یہاں زیر تعلیم زیادہ تر طلبہ کی طرح وہ بھی جرمنی میں پیدا ہوئی۔ اُس کے والدین کا تعلق افغانستان سے ہے۔ بچپن میں دو سال قرآن کا درس تو وہ لیتی رہی تاہم بعد میں اسکول میں اسلامیات سرے سے پڑھائی ہی نہیں گئی۔ وہ بتاتی ہیں: ’’مَیں نے اسلام کی ابتدا کے بارے میں اپنے والدین سے بہت کچھ سنا اور سیکھا ہے، جس سے مَیں بہت متاثر بھی ہوئی۔ کچھ کمی تھی تو یہی کہ اسلام کا تعلیمی اعتبار سے جائزہ لیا جائے۔ یہاں کی تعلیم میں مجھے یہ چیز مل رہی ہے۔ مَیں آگے یہی چیز اُن بچوں کو سکھاؤں گی، جن کی تعلیم و تربیت میں وہ کمی رہ گئی ہو گی، جو مجھے اپنے بچپن میں رہی۔‘‘
جرمن سیاستدانوں اور مسلمان تنظیموں کے درمیان اختلافات کا اسلامیات کی تعلیم میں طلبہ کی دلچسپی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ ابھی سے ان مراکز میں داخلے کی درخواستیں نشستوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج کل ان مراکز میں سینکڑوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے بہت سے آگے چل کر استاد بننا چاہتے ہیں اور جرمنی میں اس پیشے کے امکانات بہت روشن ہیں کیونکہ آنے والے برسوں میں جرمنی میں اسلامیات کے تقریباً دو ہزار اساتذہ کی ضرورت پڑے گی۔
وفاقی جرمن صدر یوآخیم گاؤک نے جمعرات 28 نومبر کو جرمن شہر میونسٹر میں قائم اس مرکز کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جرمنی میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث جرمن معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پُر امن بقائے باہمی کے لیے جرمنی میں بسنے والے مسلمانوں اور جرمن شہریوں دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا۔ گاؤک نے زور دے کر کہا کہ جرمنی میں چار ملین مسلمان بستے ہیں، جن میں سے تقریباً نصف کے پاس جرمن شہریت ہے۔
مقبول ملک