1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں الیکشن 2013 ، فیصلے کی گھڑی آن پہنچی

زبیر بشیر22 ستمبر 2013

جرمن پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹنگ آج ہو رہی ہے۔ انتخابی مہم کے خاتمے سے پہلے اہم سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور امیدواروں نے ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی بھر پور کوششیں جاری رکھیں۔

https://p.dw.com/p/19lhM
تصویر: imago stock&people

انتخابی مہم کے آخری روز چانسلر میرکل نے برلن میں عوامی رابطہ مہم چلائی تو ان کے سوشل ڈیموکریٹ حریف پیئر اشٹائن بروک نے اس مقصد کے لیے فرینکفرٹ کا انتخاب کیا۔ دونوں امیدوار ایسے ووٹرز کو متاثر کرنے کے لیے کوشاں نظر آئے، جو فی الحال تذبذب کا شکار ہیں کہ ووٹ کسے دیں۔ آج ہونے والی اس ووٹنگ میں دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔ تمام نظریں اس بات پر لگی ہیں کہ 598 رکنی وفاقی جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں میں کون سی جماعت یا اتحاد اکثریت حاصل کر پائے گا۔

جرمنی میں ہفتے کی شام تک یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اقتدار کا ہُما کس کے سر بیٹھے گا۔ یہاں قبل از انتخاب جائزوں میں فری ڈیمو کریٹک پارٹی مجموعی طور پر پانچ فیصد ووٹوں کے حصول کی شرط کے آس پاس منڈلاتی نظر آ رہی ہے۔ یہ جماعت میرکل کی حالیہ مخلوط حکومت میں ان کی اتحادی جماعت ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی زور پکڑ رہی ہیں کہ میرکل کی قدامت پسند جماعت کو اقتدار میں آنے کے لیے شاید اپنی بڑی حریف جماعت سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑے گا۔ تازہ جائزوں میں میرکل اپنے مد مقابل پئیر شٹائن بروک سے 13 فیصد ووٹ زیادہ حاصل کر سکتیں ہیں۔

Wahlkampfabschluss der Grünen in Berlin
گرینز پارٹی کی رہنما كاترين گوئرینگ ایكہارٹتصویر: Reuters

ہفتے کے روز میرکل نے برلن میں اپنے چار ہزار حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت کی قیادت جاری رکھنا چاہتی ہیں، ’’ میں چانسلر کے طور پر آئندہ چار برس آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ اپنی تقریر کا آدھا حصہ وہ یورپی یونین کا دفاع کرتی رہیں۔ برلن کے بعد میرکل نے ساحلی شہر اشٹرال زُنٹ(Stralsund) میں دو ہزار افراد کے ایک مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ آج ایک سخت انتخابی معرکہ ہونے جار ہا ہے: ’’ہاں یہ ایک سخت مقابلہ ہوگا۔‘‘ اس سے پہلے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لوگوں کی اکثریت آخری لمحے تک بھی فیصلہ نہیں کر پاتی کہ ووٹ کسے دینا ہے۔

انتخابی مہم کے آخری روز پیئر شٹائن بروک نے فرینکفرٹ میں عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ ان گفتگو کا بنیادی موضوع سماجی عدم توازن رہا۔ فرینکفرٹ میں انہوں نے اپنے کم ازکم تخواہوں اور میرکل دور حکومت میں امیر اور غریب کے درمیان پیدا ہونے والی سماجی خلیج کے موقف کی بھی وضاحت پیش کی۔ اس دوران انہوں نے یہ ضرور کہا کہ میرکل نے یورو کا یقیناً یورپی اتحاد کے مخالفین کے مقابلے میں دفاع کیا تاہم انہوں نے میرکل کے چار سالہ دور حکومت پر کڑی تنقید کی۔

Deutschland Bundestagswahl 2013 Großflächenplakat der CDU Angela Merkel
انتخابی مہم کے آخری روز چانسلر میرکل نے برلن میں عوامی رابطہ مہم چلائیتصویر: Imago

جرمنی کی ماحول دوست گرینز پارٹی کی رہنما كاترين گوئرینگ ایكہارٹ نے برلن ہی میں جمعے کے روز ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ انتخابی جائزے اپنی جگہ لیکن اصل فیصلہ اتوار کو ہونے والی ووٹنگ کے بعد ہی ہوگا۔‘‘ يورگن ٹریٹن کے ساتھ مشترکہ طور پر گرین پارٹی کی قیادت کرنے والی اس رہنما کو امید ہے کہ ان کی جماعت سن 2009 کے عام انتخابات کے 10.7 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر پائے گی۔برلن فری یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات سے تعلق رکھنے والے گیرو نوئےگیباور (Gero Neugebauer) نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ میرکل کی موجوہ مخلوط حکومت میں شامل ان کے اتحادی مستقبل میں ان کے ساتھ ہوں گے۔

جمعے روز ہونے والے دو تازہ سروے بھی یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں موجود حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں مشکلات کا شکار ہو سکتی ہیں۔ تاہم یہ سروے دنوں بڑے انتخابی دھڑوں کو 45، 45 فیصد ووٹ دے رہے ہیں۔ ان جائزوں کے نتائج کے مطابق بائیں بازو کا اتحاد جس میں ایس پی ڈی، گرین پارٹی اور لیفٹ پارٹی شامل ہے۔ مجموعی طور پر 44 فیصد ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ جس میں ایس پی ڈی 26 فیصد، گرین پارٹی 9 فیصد اور لیفٹ پارٹی بھی 9 فیصد کے قریب ووٹ حاصل کر پائیں گی۔

اس طرح میرکل کی سی ڈی یو، بویریا کی سی ایس یو بھی 40 فیصد کے قریب قریب ووٹ حاصل کر پائیں گے۔ میرکل کے موجودہ اتحاد کے لیے ایف ڈی پی کے ووٹ نہایت اہمیت کے حامل ہیں، جو اب تک کے جائزوں کے مطابق پانچ فیصد کے ارد گرد منڈلا رہی ہے۔ تمام امیدواروں نے وفاقی جرمن پارلیمان کے انتخابات کے لیے اپنی مہم مکمل کر لی ہے اورسیاسی پنڈت بھی اپنے تجزیے اور جائزے پیش کرچکے ہیں۔ اب سیاسی جماعتوں کے کارکن اور غیر جانبدار ووٹر کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ آج شام کسی حد تک واضح ہو جائے گا۔