جرمنی میں بارہواں نازی مقدمہ، انصاف عمر سے ماورا
27 فروری 2016اس سے تاہم ان مقدمات کی اہمیت ختم نہیں ہوتی۔ ماہرین کے مطابق یہ مقدمات نئی نسل کو ہولوکاسٹ کی ہولناکی سمجھانے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
جرمن اخبار زوڈ ڈوئچے سائٹنگ نے 94 سالہ سابقہ ایس ایس گارڈ رائن ہولڈ ہانینگ پر چلائے جانے والے مقدمے کی بابت اپنے اداریے میں لکھا تھا، ’’ان سماعتوں کا مقصد صرف بوڑھے افراد کو جیل بھیجنا نہیں۔‘‘
ہانینگ کے خلاف مقدمے کا آغاز گیارہ فروری سے ہوا ہے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک لاکھ ستر ہزار افراد کے قتل میں معاونت کی تھی۔
متعدد افراد کا کہنا ہے کہ جس نوعیت کے سنگین جرائم کیے گئے، اس کے مقابلے میں کوئی عدالتی کارروائی، خصوصاﹰ اتنی تاخیر سے، کبھی ماضی کے ان زخموں کو مکمل تو پر مندمل نہیں کر سکتی۔
ماربرگ یونیورسٹی سے وابستہ تاریخ دان ڈانیئل بونارڈ کے مطابق، ’’اس عدالتی کارروائی میں شاہدین کے بیانات انتہائی اہم ہیں۔‘‘
نازی دور کے بدترین حراستی مرکز آؤشوئٹس میں بچ جانے والے ژسٹِن زونڈر بھی اس سماعت میں بطور گواہ پیش ہو رہے ہیں۔ زونڈر کا کہنا ہے کہ ملزم کو دی جانے والی سزا اس سارے معاملے میں کسی خاص کردار کی حامل نہیں۔
نازی دور کی موت گاہ آؤشوٹس میں بطور طبی کارکن کام کرنے والے 95 سالہ ہوبرٹ سَفکے بھی تین ہزار چھ سو اکیاس افراد کے قتل میں معاون کےالزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پیر کے روز انہیں بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔
یہ بات اہم ہے کہ جرمنی میں صرف ان سابقہ نازی کارکنوں ہی کے خلاف نہیں بلکہ نازی جرمنی میں بڑے پیمانے پر انسانوں کے قتل عام میں کسی بھی قسم کی معاونت کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا سلسلہ جاری ہے۔
ہانینگ کے مقدمے میں امریکا، کینیڈا اور اسرائیل سے متعدد گواہ عدالت میں اپنے اپنے بیانات قلم بند کرا رہے ہیں کہ انہوں نے آؤشوئٹس کے حراستی مرکز میں کیسے کیسے بھیانک مناظر دیکھے، تاہم یہ توقع نہیں کی جا رہی ہے کہ ان میں سے کوئی گواہ اس سابقہ ایس ایس گارڈ کے بارے میں یہ کہہ سکے گا کہ اس نے اسے خود وہاں کام کرتے دیکھا۔