1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں جہادی مسلمان اور انٹرنیٹ کا کردار

6 نومبر 2012

عسکریت پسندانہ سوچ کے حامل جہادی مسلمان جرمنی میں بھی موجود ہیں، جو اپنا پیغام پھیلانے کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/16dmP
تصویر: AP

دہشت گردانہ رجحانات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق اس طرح نوجوانوں کو محض چند ماہ کے عرصے میں انتہا پسندانہ سوچ کا حامل بنایا جا سکتا ہے۔

دو مارچ 2011ء کے روز جرمنی میں فرینکفرٹ کے ہوائی اڈے پر 21 سالہ عرید اُوکا نے دو امریکی فوجیوں کو گولی مار دی تھی اور کئی دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔ اُس کے اِس عمل کی وجہ افغانستان میں جنگی مشن کے باعث اُس کی امریکی فوجیوں سے نفرت تھی۔

Deutschland Bundesamt für Verfassungsschutz in Köln Logo
تحفظ آئین کے وفاقی جرمن دفتر کا لوگوتصویر: dapd

اِس حملے سے قبل اس نے انٹر نیٹ ویب سائٹ یوٹیوب پر ایک ایسا ویڈیو کلپ دیکھا تھا جو امریکی فوجیوں کی مسلمان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیو‌ں کے بارے میں تھا۔ بعد میں پتہ چلا تھا کہ عرید اُوکا باقاعدگی سے انٹرنیٹ پر اسلام پسندوں کے مباحثوں میں حصہ لیتا تھا اور کافی تواتر سے انتہا پسند مسلم واعظوں کی تقریروں کی ویڈیوز بھی دیکھا کرتا تھا۔ اُس کا جہادی مسلمانوں کے ساتھ براہ راست رابطہ بظاہر کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔

جرمنی میں تحفظ آئین کے وفاقی دفتر کے نائب صدر آلیکسانڈر آئس فوگل کے مطابق عرید اُوکا کی شخصیت میں تبدیلی اِس امر کا قائل کر دینے والی ایک مثال ہے کہ کس طرح انٹرنیٹ کے ذریعے نوجوان مسلمان خود بخود انتہا پسندانہ سوچ کے حامل بن جاتے ہیں۔

آلیکسانڈر آئس فوگل کے بقول جرمنی میں نوجوان مسلمانوں میں اِس وقت ایک نئی طرح کی جہاد پسندی یا ’جہاداِزم‘ کے آثار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اِس رجحان کو ’وَرچُوئل جہاد‘ کا نام دیتے ہیں۔

آئس فوگل کے بقول آج انٹرنیٹ ایسے ناپختہ ذہنوں کے لیے وہ کام بھی کر رہا ہے، جو پہلے صرف شدت پسند مبلغوں، خاص طرح کے نظریاتی گروپوں یا چند مذہبی مدرسوں کی وجہ سے ہی ممکن تھا۔ تحفظ آئین کے وفاقی جرمن دفتر کے نائب سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ کام ایسے سوشل گروپ قائم کر کے کیا جاتا ہے، جو دوسرے سماجی گروپوں پر اثر انداز ہو سکتے ہوں۔

Alexander Eisvogel
تحفظ آئین کے وفاقی جرمن دفتر کے نائب صدر آلیکسانڈر آئس فوگلتصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی میں یہ پیش رفت مقابلتاﹰ نئی ہے۔ برلن میں قائم فاؤنڈیشن برائے سائنس اور سیاست ایک ایسا ادارہ ہے جو گزشتہ قریب پندرہ سال سے ملک میں جہادی پروپیگنڈے پر تحقیق کرتا آ رہا ہے۔ اس ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز تک اس طرح کے پروپیگنڈے میں انٹرنیٹ کوئی زیادہ بڑا کردار ادا نہیں کرتا تھا۔

اب لیکن حالات بدل چکے ہیں، جرمنی جیسے ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ہر کسی کی دسترس میں ہے اور انٹرنیٹ کا تقریباﹰ ہر صارف فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک عمومی رویہ یہ ہے کہ فیکس کی جگہ فیس بک نے لے لی ہے اور دہشت گردانہ سوچ کو جتنی بھی ہوا مل رہی ہے، اُس میں آن لائن فورمز اور پروپیگنڈا بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی لیے جرمنی میں بھی اب داخلی سلامتی اور انٹرنیٹ سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے جدید دور کی مشکلات کا جدید دور کے ذرائع کے ساتھ حل نکالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

K. Jansen, mm / A. Noll, ai