1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی میں داعش کے نئے ارکان کی بھرتی، 18 سالہ نوجوان گرفتار

15 اکتوبر 2020

جرمن پولیس نے ایک ایسے اٹھارہ سالہ نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے، جو دہشت گرد تنظیم داعش کے لیے نئے ارکان اور حامیوں کی بھرتی کی کوشش میں تھا۔ ملزم یہ کوششیں سوشل میڈیا پر آن لائن چیٹ کے ذریعے کر رہا تھا۔

https://p.dw.com/p/3jyff
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/S. Babbar

پولیس کے مطابق اس نوجوان کو شہر کولون میں مارے گئے ایک چھاپے کے دوران حراست میں لیا گیا۔ پولیس نے ملزم کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے متعدد مواقع پر دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے لیے نئے ارکان اور اس گروہ کے حمایتی بھرتی کرنے کی کوشش کی۔

داعش ماضی میں شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہ چکی ہے، جہاں اس شدت پسند تنظیم نے اپنے رہنما ابوبکر البغدادی کی قیادت میں اپنی ایک ریاست کے قیام کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ بعد کے چند برسوں میں داعش کو ان علاقوں سے زیادہ تر بے دخل کر دیا گیا تھا۔

جرمن جہادی کی بیوہ کو ساڑھے تین سال کی سزا سنا دی گئی

اس تنظیم کی کئی ذیلی شاخیں اور اس کے بہت سے چھوٹے چھوٹے شدت پسند گروہ آج بھی مختلف ممالک میں زیر زمین موجود ہیں، جو وہاں درجنوں خونریز حملے بھی کر چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش بہت کمزور ہو چکی ہے مگر ابھی تک پوری طرح ختم نہیں کی جا سکی۔

Salafist - Deutschland
جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ’پرخطر شدت پسند مسلمانوں‘ کی تعداد ہزاروں میں ہےتصویر: Imago/Reporters/M. Meuris

'داخلی امن کے لیے خطرناک شدت پسند مسلمان‘

کولون میں حکام نے جمعرات پندرہ اکتوبر کے روز بتایا کہ اس نوجوان کی گرفتاری اس کے خلاف صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے دارالحکومت ڈسلڈورف میں صوبائی دفتر استغاثہ کی طرف سے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کے بعد عمل میں آئی۔ ملزم آن لائن چیٹ کے ذریعے زیادہ تر جرمن نوجوانوں سے رابطے کر کے انہیں داعش کا ہمدرد بنانے کی کوشش کرتا تھا۔ اسے آج ہی ڈسلڈورف میں ایک صوبائی عدالت میں پیش کر کے اس کا تفتیشی ریمانڈ بھی لے لیا گیا۔

ترکی بدری کے بعد داعش کی مبینہ رکن جرمنی میں گرفتار

جس نوجوان کو آج گرفتار کیا گیا، ویسے افراد کو قانون نافذ کرنے والے جرمن ادارے ایسے 'خطرناک مسلم شدت پسند‘ قرار دیتے ہیں، جو داخلی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔ ایسے شدت پسند عموماﹰ کوئی تجربہ کار دہشت گرد نہیں ہوتے، لیکن وہ اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے کسی بھی وقت براہ راست یا بالواسطہ طور پر شدت پسندانہ اور خونریز کارروائیوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔ جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایسے 'پرخطر شدت پسند مسلمانوں‘ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

م م / ع ت (ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں