Berlin Terrorverdächtige Festnahme
9 ستمبر 2011ساتھ ساتھ خفیہ اداروں کو مستحکم تر بنا دیا گیا۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق جرمنی میں موجود اور تشدد پر آمادہ مسلمان انتہا پسندوں کی تعداد ایک اور دو سو کے درمیان ہے اور اُن پر مسلسل کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار ڈانیل شیشکے وِٹس کے مطابق دہشت گردی کا حقیقی خطرہ یقیناً ہمیشہ موجود رہتا ہے لیکن بہت زیادہ پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے تبصرے میں مزید لکھتے ہیں:
’’برلن میں ہونے والی تازہ گرفتاریوں کے بعد بھی بہت زیادہ پریشانی بے جا ہے۔ اِس بات کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں کہ عنقریب کوئی دہشت پسندانہ حملہ ہونے والا ہے۔ ابھی تک تو دفترِ استغاثہ نے بھی اس سلسلے میں کوئی تحقیقات شروع نہیں کی ہیں۔ جرمنی میں سلامتی کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد کے حصول کی کوشش کو عوام کی جانب سے دی گئی واضح اطلاعات کی بدولت ناکام بنا دیا گیا ہے اور دونوں مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔
اِسی ایک نکتے کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر جرمن شہری عمومی خطرے کا شعور رکھتے ہیں اور وہ دہشت گردی کے واقعات کو ناکام بنانےکے سلسلے میں سرگرم مدد فراہم کر رہے ہیں۔ دَس سال پہلے صورتحال شاید مختلف ہوتی۔ سردست جرمنی میں کہیں بھی دہشت گردی سے حد سے زیادہ خوف یا ہسٹیریا کی سی کیفیت نظر نہیں آتی۔ ہو سکتا ہے کہ اِس کی وجہ گزشتہ موسمِ سرما میں حکام کی جانب سے کیا جانے والا دہشت گردی کا وہ انتباہ ہو، جس کے نتیجے میں عوامی زندگی میں جامع حفاظتی انتظامات متعارف کروائے گئے تھے لیکن خوش قسمتی سے کوئی دہشت گردانہ واقعہ عمل میں نہیں آیا تھا۔
اگرچہ آج کل تمام ذرائع ابلاغ میں نائن الیون کے ہولناک واقعات کی تصاویر کے ذریعے دَس برس پہلے کی دہشت گردی کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں لیکن اِس کے باوجود زیادہ تر جرمن اِس کی وجہ سے کسی پولیس اسٹیٹ میں زندگی گزارنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ دہشت گردی کا حقیقی خطرہ موجود ہے اور دُنیا کے کسی بھی حصے میں اِس پر پوری طرح سے قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہ خطرہ اِس بات کا جواز فراہم نہیں کرتا کہ انسان مسلسل خوف کی حالت میں رہے یا اپنی شہری آزادیوں کو خیر باد کہہ دے۔ شہریوں کے ذاتی ٹیلی فون اور ای میل ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے عمل کی محض استثنائی صورتوں میں اجازت ہونی چاہیے۔ ہر شہری کے نجی معاملاتِ زندگی کا تحفظ ضروری ہے اور اِس بات کا اطلاق اُن کئی ملین مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے، جو جرمن شہریت کے ساتھ یا اُس کے بغیر جرمنی میں رہ رہے ہیں۔
جرمنی میں گزشتہ چند برسوں کے دوران انتہا درجے کی بیداری اور چوکسی اور معمول کے اطمینان کا ایک صحت مندانہ امتزاج نظر آنے لگا ہے۔ اِس میں گرفتاریوں یا دہشت گردانہ حملوں کی کوششوں پر سیاستدانوں کے دانشمندانہ طرزِ عمل نے بھی بلا شبہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہتر یہی ہو گا کہ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے۔‘‘
رپورٹ: امجد علی
ادارت: حماد کیانی