جرمنی میں سیاسی پناہ کے طریقہٴ کار پر بحث میں پھر شدت
23 دسمبر 2016چند مہینے پہلے چانسلر میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یُو) میں آنے والے بھونچال کے بعد حالات بالآخر پُر سکون ہونے لگے تھے اور چانسلر کے چہرے پر مسکراہٹ واپس آنے لگی تھی۔ رائے عامہ کے جائزوں میں سی ڈی یُو کی پوزیشن بہتر ہونے لگی تھی اور انگیلا میرکل ملک کے مقبول ترین سیاستدانوں کی درجہ بندی میں کچھ اور اوپر چلی گئی تھیں۔
مہاجرین اور دہشت گردی کا خطرہ
کچھ عرصہ پہلے کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی پارٹی کانگریس میں انگیلا میرکل کو ایک بار پھر اس جماعت کا سربراہ منتخب کر لیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے چوتھی مرتبہ ملک کی سربراہِ حکومت بننے کے لیے اپنی جدوجہد شروع کر دی تھی۔ اس پارٹی کانگریس میں سیاسی پناہ کی پالیسیوں کے حوالے سے کیے جانے والے سخت فیصلوں کے بعد پارٹی کے اندر موجود ناقدین کی زبانیں بھی خاموش ہو گئی تھیں۔ تاہم برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے نے راتوں رات سارا منظر نامہ بدل دیا ہے۔ اب وہی ناقدین خود کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں، جو مسلسل چانسلر میرکل کی مہاجرین سے متعلق سیاست کو دہشت گردی کے خطرے سے جوڑ رہے تھے اور جنہیں تمام مہاجرین میں ممکنہ دہشت گرد نظر آتے ہیں۔
’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ نامی مہاجرین مخالف جماعت کا اب اور بھی بلند آواز میں یہ کہنا کہ ’چانسلر کو جانا ہو گا‘ خلاف توقع نہیں ہے۔ اس جماعت کے کچھ علاقائی سیاستدان چانسلر کے خلاف زیادہ سخت زبان استعمال کر رہے ہیں جبکہ مرکزی رہنما اپنی بیان بازی میں قدرے اعتدال پسندی سے اس لیے کام لے رہے ہیں تاکہ اُن ووٹروں کو بھی اپنی طرف راغب کر سکیں، جو سیاسی انتہا پسندی کو تو رَد کرتے ہیں لیکن آج کل کے خوف کے ماحول میں ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
اپنی صفوں میں موجود دشمن
خلاف توقع وہ رد عمل ہے، جس کا اظہار خود میرکل کی جماعت سی ڈی یُو اور ساتھی جماعت سی ایس یُو کے اندر سے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ سی ایس یُو کے سربراہ اور صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ ہورسٹ زیہوفر نے تو برلن حملے کے اگلے ہی روز مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو بدلنے کا مطالبہ کر ڈالا۔
زیہوفر میرکل پر پیچھے سے یہ وار خوب سوچ سمجھ کر کر رہے ہیں۔ وہ دباؤ ڈال کر آئندہ آنے والے مہاجرین کی تعداد کو محدود کروانا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ خود شاید یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ اس طرح کے طرزِ عمل سے وہ اپنی یونین جماعتوں کو اور انگیلا میرکل کو بطور چانسلر امیدوار کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
قصور اور ذمے داری
گیارہ سال سے برسرِاقتدار چلی آ رہی چانسلر میرکل کو ان حالات کا بخوبی اندازہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج کل اپنے بیانات میں بہت محتاط ہو گئی ہیں۔ اگرچہ برلن حملے میں اُن کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن اس واقعے کی سیاسی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے اُن پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
جرمنی میں اگلے عام انتخابات کے نتائج کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ 2017ء میں جرمنی کس حد تک دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اگر ملک میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا گیا تو عوام میں کسی طاقتور شخصیت کو حکومت میں لانے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جائے گا۔ یہ طاقت چانسلر شپ کی ایک ایسی امیدوار کے پاس نہیں ہے، جس پر اپنی ہی صفوں میں بد اعتمادی کا اظہار کیا جا رہا ہو۔