جرمنی میں ماحول دوست چانسلر سے متعلق قیاس آرائیاں
21 اپریل 2011یورپ میں سب سے زیادہ اقتصادی طاقت کے حامل اس ملک کی گرین پارٹی بنیادی طور پر محض ایک پریشر گروپ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ تین عشرے قبل جب گرین پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، تو اس کا بنیادی نعرہ اینٹی نیوکلیئر اور جنگ مخالف تھا۔
اس کے باوجود جاپان کے جوہری حادثے کی وجہ سے اس کی حمایت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس نے ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو گزشتہ ماہ ایک صوبائی الیکشن میں شکست دے کر سب کو حیران کر ڈالا۔ باڈن وُرٹیمبرگ صوبے میں گرین پارٹی کی قیادت میں حکومت کا قیام اپنی نوعیت کا پہلا تجر بہ ہوگا۔
اب یہ قیاس آرائیاں بھی زور پکڑ گئی ہیں کہ گرین پارٹی 2013ء کے انتخابات کے دوران چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کر سکتی ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ماحول پسندوں کے پاس اس پائے کا کوئی رہنما بھی موجود ہے؟
اس طرح مرکزی حکومت کا انتظام ہاتھ آنا گرین پارٹی کے بنیادی ڈھانچے کے لیے بھی نہایت مختلف تجربہ ہوگا۔ کچھ پارٹی عہدیدار اس معاملے کی وجہ سے کچھ پریشان بھی ہیں۔
عمومی طور پر بڑی جماعتوں کے برعکس گرین پارٹی میں قیادت ایک جگہ مرکوز نہیں ہوتی اور اس کے نظریات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ کسی ایک پارٹی رہنما کو دو عہدے رکھنے کی اجازت بھی نہیں۔ جرمن سیاست پر نظر رکھنے والے فورسا پولنگ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مانفریڈ گؤلنیر کا کہنا ہے کہ بیشتر جرمن باشندے فی الحال ماحول پسندوں کی جماعت سے تعلق رکھنے والے چانسلر کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ عوامی سطح پر گرین پارٹی کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ چانسلر کے عہدے کا خواب ہی نہیں دیکھ رہی۔
ماہرین کے بقول چونکہ گرین پارٹی نے اب تک کے عام انتخابات میں گیارہ فیصد سے زیادہ ووٹ ہی حاصل نہیں کیے اس لیے چانسلر کے عہدے کی خواہش ظاہر کر کے وہ اپنی ساکھ متاثر نہیں کرنا چاہتی۔ اس کی ایک مثال فری ڈیموکریٹک پارٹی ہے، جس نے 2002ء کے انتخابات میں موجودہ وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کو چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کیا تھا۔ انتخابات میں محض سات فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد اس جماعت کا خوب مذاق اڑایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اپوزیشن کے سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی 1998ء تا 2005ء مخلوط حکومت میں ساتھی رہ چکی ہیں۔ حالیہ جائزوں کے مطابق ان دونوں جماعتوں کو موجودہ حکمران اتحاد پر نمایاں برتری حاصل ہے۔ جہاں تک چانسلر کے عہدے کے لیے گرین پارٹی کے کسی متوقع امیدوار کا تعلق ہے تو اس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ آیا اس جماعت کی مقبولیت برقرار رہے گی یا حکومت جوہری بجلی گھر بند کر کے شہریوں کے دل موہ لے گی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک