جرمنی میں مسلمانوں کا تشخص
24 اپریل 2009جرمنی ميں تقريبا ساڑھے تين ملين مسلمان آباد ہيں۔ ان ميں سے اکثر کا تعلق ترکی سے ہے جہاں سے اُن کے والدين ملازمت کی غرض سے جرمنی میں آن آباد ہوئے تھے۔ ايرانی نژاد اديب نويد کرمانی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے جرمنی کے اکثريتی غيرمسلم معاشرے ميں مسلمانوں کے تشخص ، اسلام اور ترک وطن جیسے موضوعات پر ایک کتاب تحریر کی جو کافی مقبول ہوئی۔
نويد کرمانی نے اپنی کتاب "ہم کا مطلب کيا ہے" کا آغاز اپنے بچپن کے دور سے کيا ہے۔ وہ جرمن شہرsiegen ميں پيدا ہوئےتھے۔ ان کے والدين ايرانی ہيں۔ گھر کے باہر اسکول اور فٹ بال کلب ان کے لئے جرمنی تھے اور گھر کے اندر ايران تھا ۔ وہ اسے اپنے بچپن کی چھوٹی سرحدی نقل وحرکت کہتے ہيں جس کے اثرات ان پر واضح ہیں ۔ نويد کرمانی نے کہا " مجھے يہ سيکھنے کی ضرورت نہيں پڑی کہ ايک اور دنيا بھی ہے، دوسری زبانيں اور ثقافتيں بھی ہيں اور چيزوں کو مختلف انداز ميں بھی ديکھا جاسکتا ہے کيونکہ ميرے سامنے يہ سب کچھ ہر روز ہی موجود تھا ۔ ميں يہ بھی جانتا تھا کہ نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے اور اس بات کا جواز بھی ہے۔ يہ بھی کہ نظريات کو غلط يا صحيح قرار ديا جانا ضروری نہيں ہے اور يہ کہ ان ميں سے صرف ايک ہی نظریہ قائم نہيں رہ سکتا ہے"۔
نويد کرمانی آج ايک اديب کےساتھ ساتھ مضمون نويس، اسلامی علوم کے ماہر اور تھيٹر کے ہدايتکار بھی ہيں۔ جس طرح ان کی دلچسپيوں ميں تنوع ہے اسی طرح وہ اپنے تشخص کو بھی کثير پہلوؤں والا سمجھتے ہيں ۔ اسی طرح وہ اسلامی ملکوں کے تارکين وطن کو صرف ان کے مسلمان ہونے کی صفت تک محدود کرنے کے خلاف شديد احتجاج کرتے ہيں ۔ ان کا خيال يہ بھی ہے کہ اسلام ايک اکائی نہيں ہے ۔
نويد کرمانی نے اپنی کتاب "ہم کا مطلب کیا"، ميں ذاتی تجربات کے بعد سياسی تجزيوں کو بھی جگہ دی ہے۔ ان کے خيال ميں ثقافتوں کے درميان جس تصادم کی بات اکثر کی جاتی ہے وہ اسلام اور مغرب کے درميان نہيں بلکہ اگر ہوا تو وہ اسلامی دنيا اور مغربی دنيا کے عين وسط ميں ہوگا کيونکہ يورپ ميں بھی اس پر بحث ہورہی ہے کہ ہماری ثقافت کيا ہے اور کون اس ميں شامل ہے۔ کرمانی نے کہا کہ خاص طور پر جرمنی کے لئے يہ ايک مشکل مسئلہ ہے۔
کرمانی کہتے ہیں "جرمنی ميں اس پر بحث امريکہ کے مقابلے ميں مختلف طرز کی ہے ۔ اس وجہ سے اپنے تمام مسائل کے باوجود امريکيوں کو معاشرتی انضمام اور دوسری ثقافتوں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے ميں نماياں طور پر کم مسائل کا سامنا ہے۔ چنانچہ مسلمان گيارہ ستمبر کے واقعات کے باوجود يورپ کے مقابلے ميں امريکہ ميں خود کو بہت بہتر محسوس کرتے ہيں ۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ امريکہ ميں اپنی قوم کا ايک ايسا تصور ہے جس ميں دوسروں کو باہر نہيں رکھا جاتا بلکہ اپنے ساتھ شامل کيا جاتا ہے۔ يعنی يہ کہ امريکی ہوتے ہوئے بھی خود اپنی ثقافت اور زبان کو برقرار رکھا جاسکتا ہے"۔
ليکن جرمنی ميں اکثر معاشرتی انضمام کا غلط مطلب سمجھا جاتا ہے اور يہ خيال کيا جاتا ہے کہ اس کا مطلب اپنی ثقافتی جڑوں کو کاٹ دينا ہے ۔ دوسری طرف سماجی مسائل کو ثقافتی اور مذہبی مسائل کا رنگ ديا جاتا ہے اور يوں ظاہر کيا جاتا ہے کہ جيسے ان کی وجہ ، مثال کے طور پر کم تعليمی مواقع کے بجائے اسلام ہو۔ اس طرح مسلم تارکين وطن کو دوہرا نقصان ہوتا ہے ۔
نويد کرمانی جرمن اسلام کانفرنس کے پرجوش حامی ہيں جس کی بنياد جرمن وزيرداخلہ وولف گانگ شوئبلے نےسن 2006 ميں رکھی تھی۔ اس کے دائرے ميں جرمن حکومت اور مسلمانوں کے تيس نمائندے باقاعدگی سے جرمنی ميں اسلام کے بارے ميں مباحثہ کرتے ہيں ۔ ان ميں نويد کرمانی بھی شامل ہيں ۔ ان کے لئے اس کی زبردست علامتی اہميت ہے ۔
نوید کرمانی نے کہا : "اس کی وجہ سے جرمنی ميں انداز فکر ميں بہت تبديلی آئی ہے ۔ جب آپ ٹيليوژن پر ديکھتے ہیں کہ وزير داخلہ سب لوگوں سے ہاتھ ملا رہے ہيں تو اچانک يہ مہمان کارکنوں يا وزارت خارجہ کا مسئلہ نہيں رہ جاتا بلکہ يہ وزيرداخلہ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اچانک آپ مسلمانوں کو ٹی وی پر ديکھتے ہيں اور يہ کوئی عرب يا ترک مسلمان نہيں بلکہ يہ جرمن ہيں،اور اسی معاشرے کا حصہ ہيں"۔
کرمانی کے خيال ميں مسلمانوں کے ساتھ مکالمت کا موقع خود بخود ہی پيدا ہوتا رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں "کيونکہ مسلمان بھی "ہم" ميں ہی سے ہيں ، جس طرح کہ يہودی ہيں ۔ "ہم "کے تصور کو ايک نقطے پر مرکوز نہيں کيا جاسکتا کيونکہ اس کی تعريف مشترکہ زبان اور جغرافيائی لحاظ سے کی جاتی ہے۔ جو بھی يہاں رہتا ہے وہ اس ميں شامل ہے اور اس کا حصہ ہے"۔
نويد کرمانی کی کتاب "ہم کا مطلب کيا ہے" متنازعہ نہیں بلکہ يہ ايک مصالحت کی دعوت دينے والی کتاب ہے۔ وہ فکريہ انداز ميں اپنے سامعين سے يہ کہنا چاہتے ہیں کہ جرمنی دنيا کے لئے اور زيادہ کھل سکتا ہے اور ہم اسے ممکن بنا سکتے ہيں۔
پیٹرا لم بیک/ شہاب احمد صدیقی/ مقبول ملک