جرمنی میں مقیم ترک نژاد شہریوں کی طرز زندگی
جرمنی نے ساٹھ برس قبل ملک میں تربیت یافتہ مزدوروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ترک ’مہمان مزدوروں‘ کو بھرتی کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ جرمنی کے روہر میوزیم میں ترک باشندوں کی زندگی کے بارے میں ایک نمائش پیش کی جا رہی ہے۔
جرمنی کا اقتصادی معجزہ
بون اور انقرہ کے درمیان سن 1961 میں ترک ملازمین کو بھرتی کرنے کے معاہدے کے بعد سے سن 1973 میں بھرتیاں بند ہونے تک ترکی سے 10 لاکھ سے زائد ’مہمان مزدور‘ جرمنی آئے تھے۔ آج ترک کمیونٹی، جرمنی میں سب سے بڑی نسلی اقلیتی برادری ہے۔
اپنی قسمت کی تلاش میں
جرمنی کو 1950ء کی دہائی میں تیزی سے معاشی ترقی کی وجہ سے تربیت یافتہ مزدوروں کی کمی کا سامنا تھا، خاص طور پر زراعت اور کان کنی کے شعبوں میں۔ ڈوئسبرگ کی والزم کان میں کام کرنے والے دو کان کن اپنی شفٹ مکمل کرنے سے قبل ایک گاڑی میں بیٹھے ہیں۔
’ہم یہاں سے ہیں‘
سن 1990 میں استنبول میں مقیم فوٹوگرافر ایرگُن چاتائے نے جرمن شہر ہیمبرگ، کولون، برلن اور ڈوئسبرگ میں ترک نژاد افراد کی ہزاروں تصویریں کھینچی تھی۔ روہر میوزیم میں ایک خصوصی نمائش کے حصے کے طور پر ’’ہم یہاں سے ہیں: 1990ء میں ترک جرمن زندگی‘‘ کے عنوان سے یہ تصاویری نمائش پیش کی جا رہی ہے۔
حقوق کا مطالبہ
سن 1989 میں دیوار برلن کے انہدام سے سابقہ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے دوران جرمنی ایک کثیر الثقافتی یا ملٹی کلچرل سوسائٹی بننے کے عمل میں تھا۔ اس تصویر میں مظاہرین 31 مارچ 1990ء کو ہیمبرگ میں تارکین وطن سے متعلق ایک نئے قانونی مسودے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ترکش فیملی کا گھر
یہ نمائش جرمنی میں ترکی کے ’مہمان ملازمین‘ کی پہلی اور دوسری نسل کی نقل مکانی کی جامع کوریج ہے۔ اس تصویر میں ہیمبرگ میں مقیم حسن حسین گل کا آٹھ افراد پر مشتمل کنبہ اپنے گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں ترکی کا ذائقہ
کولون میں یہ ترک تارکین وطن کی سبزیوں اور پھلوں کی دکان ہے۔ آج کل جرمنی میں زیتون اور بھیڑ کے دودھ سے تیار کردہ پنیر جیسی ترک مصنوعات بہت آسانی سے مل سکتی ہیں۔ لیکن ماضی میں مہمان مزدور ترکی سے واپسی کے دوران اپنی گاڑیوں میں کھانے پینے کی چیزیں بھر بھرکر اپنے ساتھ لاتے تھے۔
جرمنی میں کھیلتے ترک بچے
کولون شہر کے ایک پلے ایریا میں ترک نژاد بچے غباروں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ان کے پس منظر میں دیوار پر درخت کی تصویر کے ساتھ ترک شاعر ناظم حکمت کی ایک نظم کا اقتباس لکھا ہے۔ ’’جینے کے لیے! درخت کی طرح تنہا اور آزاد۔ جنگل کی طرح بھائی چارے میں۔ یہ تڑپ ہماری ہے۔‘‘ حکمت روس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، جہاں سن 1963 میں ان کا انتقال ہوا تھا۔
درس قرآن
جرمن شہر ویرل کی فتح مسجد میں قائم ایک مدرسے میں ترک نژاد بچے عربی حروف سیکھ رہے ہیں تاکہ وہ قرآن پڑھ سکیں۔ جرمنی میں اُس وقت مینار کے ساتھ تعمیر ہونے والی یہ پہلی مسجد تھی۔ اس سے قبل زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کے احاطے میں نماز پڑھتے تھے۔
ترک شادیوں کی تقریب
ترک فوٹوگرافر ایرگُن چاتائے نے برلن کے ضلع کروئزبرگ میں منعقدہ ایک ترکش شادی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ دولہا دلہن کو مہمان نوٹوں کے ہار پہنا رہے ہیں۔ روایتی طور پر نیا شادی شدہ ترک جوڑا اپنے بستر میں ایک ہی بڑے تکیے کا استعمال کرتا ہے۔
ماشاء اللہ!
جرمنی میں بسنے والے زیادہ تر ترک تارکین وطن عموماﹰ اپنی روایات سے جڑے رہتے ہیں۔ برلن میں ایک ترک بچے کے ختنہ کی تقریب منائی جا رہی ہے۔ ایرگُن چاتائے کی تصویروں کی نمائش ہیمبرگ اور برلن کے علاوہ ازمیر، انقرہ اور استنبول میں منعقد کی جائے گی۔