1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں کم تر شرحء پیدائش کے خلاف کوششیں بے اثر

25 جون 2013

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو اپنی انتخابی مہم کے دوران ان دنو‌ں یہ وعدے کر رہی ہے کہ وہ ستمبر کے الیکشن میں کامیاب ہو کر بچوں والے گھرانوں کو حاصل سماجی اور مالیاتی فوائد میں اضافہ کر دے گی۔

https://p.dw.com/p/18vU9
تصویر: picture-alliance/dpa

ساتھ ہی کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی طرف سے یہ اعتراف بھی کیا جا رہا ہے کہ خاندانوں سے متعلق اس کی نئی حکمت عملی کے نتائج محدود ہی ہوں گے۔ کرسچن ڈیموکریٹس کی اس نئی فیملی پالیسی کا مقصد ملک میں بہت کم شرحء پیدائش میں اضافے کی کوشش کرنا ہے تاکہ طویل المدتی بنیادوں پر ملک میں انتہائی کم شرحء پیدائش جرمنی کی اقتصادی کارکردگی کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔

Kampagne Dein Tag für Afrika 18.06.2013 Malu Dreyer
جرمنی صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں سے کم ترین شرحء پیدائش والا ملک ہےتصویر: picture-alliance/dpa

شماریاتی حوالے سے ایک عام جرمن خاتون اپنی زندگی میں اوسطاﹰ صرف 1.3بچوں کو جنم دیتی ہے۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں نظر آنے والی یہ بچوں کی پیدائش کی کم ترین اوسط قومی شرح ہے۔ اس کا نتیجہ یہ کہ جرمنی کی مجموعی آبادی بھی کم ہو رہی ہے اور عام شہریوں کی اوسط عمر بھی زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔

یہ صورتحال طویل المدتی بنیادوں پر جرمنی کے اقتصادی اور مالیاتی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے کیونکہ آبادی کے مسلسل بوڑھے ہوتے جانے اور کم تر شرحء پیدائش کی وجہ سے ملک کے صنعتی، پیداواری اور کاروباری ادارو‌ں کے لیے کافی تعداد میں نئے کارکن تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
خاندانی امور کی وفاقی جرمن وزیر کرسٹینا شروئڈر کہتی ہیں کہ حکومت کی اب تک کی فیملی پالیسی ناکام نہیں رہی۔ اس پالیسی کے تحت برلن حکومت تمام 16 صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر سالانہ 200 بلین یورو خرچ کرتی ہے۔ کرسٹینا شروئڈر کہتی ہیں کہ حکومت کی اب تک کی فیملی پالیسی ناکام نہیں رہی لیکن حکومت اسے مزید بہتر بنانا چاہتی ہے۔

وفاقی وزیر کرسٹینا شروئڈر کے مطابق یہ سیاستدانوں کا کام نہیں ہے کہ وہ سماجی سطح پر خاندانی نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ان کے مطابق معاشرے کی بنیادی اکائی کے طور پر خاندانی زندگی کا تسلسل خود شہریوں کی ذمہ داری ہے لیکن اس عمل میں حکومت ان کی پوری مدد کرنا چاہتی ہے۔

Forschungsstelle Entartete Kunst (Freie Universität Berlin)
جرمنی میں یونیورسٹیوں کی فارغ التحصیل خواتین میں سے ہر تیسری خاتون کا اپنا کوئی بچہ نہیں ہےتصویر: DW/B. Schröder

کرسٹینا شروئڈر کہتی ہیں کہ حکومت صرف یہ چاہتی ہے کہ بچے پیدا کرنے کی عمر کی جرمن خواتین کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے اور آئندہ مہینوں اور برسوں میں ایسی خواتین کو زیادہ بچے جنم دینے کی طرف راغب کیا جا سکے۔

جرمنی کی فیملی پالیسی پر ماضی میں بھی کئی مرتبہ داخلی اور بیرونی تنقید سننے میں آ چکی ہے۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی OECD کی طرف سے بھی برلن حکومت کی سیاسی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ موجودہ چانسلر انگیلا میرکل خود بھی کئی بار کہہ چکی ہیں کہ ہمسایہ ملک فرانس کی خاندانوں سے متعلق سیاست کے مقابلے میں اس شعبے میں جرمن پالیسی میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔

کئی سماجی ماہرین کے بقول علامتی سطح پر یہ بات بھی اہم ہے کہ خود چانسلر میرکل کی اپنی بھی کوئی اولاد نہیں ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ کرسٹینا شروئڈر جرمنی کی وفاقی جمہوری تاریخ کی وہ پہلی وزیر ہیں جنہوں نے کابینہ کی رکن کے طور پر فرائض انجام دیتے ہوئے ایک بچے کو جنم دیا۔ ان کی کوشش ہے کہ جرمنی میں کام کرنے والی خواتین کے لیے خاندانی زندگی اور کام کاج کی عمر والی ماؤں کے لیے حصول روزگار کے سلسلے میں مزید آسانیاں پیدا کی جانا چاہییں۔

mm / ij (AFP)