1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت کا ایک برس

1 اکتوبر 2018

جرمنی میں یکم اکتوبر 2017ء کو ہم جنس پرست جوڑوں کے درمیان شادیوں کے باقاعدہ اندراج کا آغاز ہوا تھا۔ جرمنی میں ان شادیوں کے باضابطہ اندراج اور تقریبات کے لیے برسوں ایسے افراد نے قانونی جدوجہد کی تھی۔

https://p.dw.com/p/35nqA
Gay Lesbisch Hand in Hand Homosexualität Frauen Symbolbild
تصویر: Getty Images/N. Asfouri

جرمن پارلیمنٹ کے اکثریتی ممبران نے 30 جون 2017ء کو ایک رائے شماری کے ذریعے ملک میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی تھی۔ تاہم ایسی شادیوں کے اندراج کا آغاز یکم اکتوبر 2017ء کو ہوا تھا۔

جرمن دارالحکومت برلن کے علاوہ ہیمبرگ، ہینوور اور کئی دیگر شہروں میں ایک برس قبل آج ہی کے دن بڑی تعداد میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ جرمنی میں سب سے پہلی ایسی شادی ساٹھ سالہ بوڈو مینڈو اور اُس کے انسٹھ برس کے پارٹنر کارل کرائلی کے درمیان برلن میں ہوئی۔ یہ دونوں سن 1979 سے اکھٹے زندگی بسر کر رہے تھے۔ کرائلی نے اس موقع پر کہا کہ یہ یقینی طور پر ایک جذباتی لمحہ ہے اور یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ ریاست نے انہیں بھی بقیہ جوڑوں کے طرح حقوق دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

یورپ میں جرمنی پندرہواں ایسا ملک ہے، جہاں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دی گئی۔ اس حق کے لیے ہم جنس پرستوں نے سن 1990 کے قریب اپنی عملی جدوجہد شروع کی تھی۔ جرمنی کی ماحول دوست سیاسی جماعت گرینز پارٹی ان کی جدوجہد میں تمام وقت شامل رہی۔

Deutschland Ehe für alle - Karl Kreil und Bodo Mende in Berlin
جرمنی میں سب سے پہلی ایسی شادی ساٹھ سالہ بوڈو مینڈو اور اُس کے انسٹھ برس کے پارٹنر کارل کرائلی کے درمیان برلن میں ہوئی۔تصویر: Reuters/A. Schmidt

اندازوں کے مطابق جرمنی میں چورانوے ہزار ہم جنس پرست جوڑے ہیں، جنہیں گزشتہ برس جولائی میں ملکی پارلیمان میں منظور ہونے والی قانون سازی کے بعد شادی رچانے کا حق حاصل ہوا تھا۔ اس قانون سازی کو چانسلر میرکل کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی قرار دیا گیا تھا۔ تاہم چانسلر نے رائے شماری کے وقت اپنا ووٹ بھی استعمال نہیں کیا تھا۔

براعظم یورپ میں سب سے پہلے ہالینڈ نے سن 2000 میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی طور پر جائز قرار دیا تھا۔ اس کے بعد اسپین، سویڈن، برطانیہ اور فرانس نے ایسے قوانین کی منظوری دی تھی۔