1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی نے ترک صدر کی درخواست مسترد کر دی

29 جون 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن جرمن شہر ہیمبرگ میں جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے موقع پر ایک ریلی سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی درخواست برلن حکومت نے مسترد کر دی۔

https://p.dw.com/p/2fehg
Türkei Recep Tayyip Erdogan in Istanbul
تصویر: Reuters/M. Sezer

جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے بتایا کہ گزشتہ روز بدھ کو ترک حکومت کی جانب سے ایک درخواست موصول ہوئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر رجب طیب ایردوآن جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے موقع پر اپنے ملک کے شہریوں سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ گابریئل کے بقول، ’’وہ اسے کوئی معقول خیال تصور نہیں کرتے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ جی ٹوئٹنی اجلاس کے دوران سخت حفاظتی انتظامات کیے جائیں گے اور تمام تر پولیس اس میں مصروف ہو گی، ’’ایسی صورت میں ایردوآن کی حفاظت کے لیے اضافی پولیس اہلکاروں کا انتظام کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘

Bundeausßenminister Sigmar Gabriel in Libyen
تصویر: Reuters/I. Zitouny

زیگمار گابیرئل مزید کہتے ہیں کہ برلن اور انقرہ کے مابین حالیہ تنازعے کے پیش نظر ایردوآن کو خطاب کی اجازت دینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہو گا۔ گابیرئل نے مزید کہا کہ برلن حکومت یہ نہیں چاہتی کہ جرمنی میں رہنے والے ترک شہریوں کو کسی طرح اکسایا جائے۔ بیس ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان کا یہ اجلاس سات اور آٹھ جولائی کو ہیمبرگ میں ہو رہا ہے۔

جرمن حزب اختلاف کا موقف بھی اس تناظر میں بالکل واضح ہے۔ بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کی سارہ واگن کنیشٹ نے بھی برلن حکومت سے ایردوآن کے خطاب پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے بقول، ’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ جرمنی کے بڑے بڑے ہالز یا عوامی مقامات پر ایک ایسی حکومت کو جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے، جو انسانی حقوق کو پامال کرتی ہے اور بہت سی اقدار کو پیروں تلے روندھتی ہے۔‘‘

 جرمنی اور ترکی کے باہمی روابط گزشتہ کئی مہینوں سے سرد مہری کا شکار ہیں۔ تاہم انقرہ حکومت کی جانب سے جرمن سیاستدانوں کو ترک فوجی چھاؤنی انجرلیک پر تعینات جرمن فوجیوں سے ملاقات کی اجازت نہ دینے کے بعد یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا تھا۔ تاہم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں شامل جرمن فوجی اہلکاروں کو اب ترکی سے اردن منتقل کیا جا رہا ہے۔