جرمنی نے ترک صدر کی درخواست مسترد کر دی
29 جون 2017جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے بتایا کہ گزشتہ روز بدھ کو ترک حکومت کی جانب سے ایک درخواست موصول ہوئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر رجب طیب ایردوآن جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے موقع پر اپنے ملک کے شہریوں سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ گابریئل کے بقول، ’’وہ اسے کوئی معقول خیال تصور نہیں کرتے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ جی ٹوئٹنی اجلاس کے دوران سخت حفاظتی انتظامات کیے جائیں گے اور تمام تر پولیس اس میں مصروف ہو گی، ’’ایسی صورت میں ایردوآن کی حفاظت کے لیے اضافی پولیس اہلکاروں کا انتظام کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
زیگمار گابیرئل مزید کہتے ہیں کہ برلن اور انقرہ کے مابین حالیہ تنازعے کے پیش نظر ایردوآن کو خطاب کی اجازت دینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہو گا۔ گابیرئل نے مزید کہا کہ برلن حکومت یہ نہیں چاہتی کہ جرمنی میں رہنے والے ترک شہریوں کو کسی طرح اکسایا جائے۔ بیس ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان کا یہ اجلاس سات اور آٹھ جولائی کو ہیمبرگ میں ہو رہا ہے۔
جرمن حزب اختلاف کا موقف بھی اس تناظر میں بالکل واضح ہے۔ بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کی سارہ واگن کنیشٹ نے بھی برلن حکومت سے ایردوآن کے خطاب پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے بقول، ’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ جرمنی کے بڑے بڑے ہالز یا عوامی مقامات پر ایک ایسی حکومت کو جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے، جو انسانی حقوق کو پامال کرتی ہے اور بہت سی اقدار کو پیروں تلے روندھتی ہے۔‘‘
جرمنی اور ترکی کے باہمی روابط گزشتہ کئی مہینوں سے سرد مہری کا شکار ہیں۔ تاہم انقرہ حکومت کی جانب سے جرمن سیاستدانوں کو ترک فوجی چھاؤنی انجرلیک پر تعینات جرمن فوجیوں سے ملاقات کی اجازت نہ دینے کے بعد یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا تھا۔ تاہم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں شامل جرمن فوجی اہلکاروں کو اب ترکی سے اردن منتقل کیا جا رہا ہے۔