جرمنی نے ٹوئٹر کی ٹرمپ پر پابندی کو ’مسئلہ‘ قرار دے دیا
12 جنوری 2021ایک بیان میں جرمن چانسلر کے ترجمان اسٹیفن زائیبرٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ سیاسی بیانات سے جھوٹ، نفرت اور تشدد پر اکسانے کو فروغ حاصل نہ ہو۔
انہوں نے کہا سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے رجحانات کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتی اور ان کی طرف سے اس قسم کے مواد کی نشاندہی کرنا درست ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کے حق کی بھی بنیادی اہمیت ہے۔
برلن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جرمن چانسلر کے ترجمان نے کہا کہ اس بنیادی حق پر بعض اوقات قدغنیں لگائی جا سکتی ہیں لیکن قانون کے دائرے میں اور منتخب نمائندوں کی طرف سے تعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے منتظمین کو پابندیاں لگانے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے جرمن چانسلر کو صدر ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہمیشہ کے لیے بلاک کیے جانے پر تشویش ہے۔ ناقدین کے مطابق کسی سوشل میڈیا کمپنی کے سربراہ کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ جب چاہے کسی سربراہ مملکت کو اپنی بات لاکھوں لوگوں تک پہنچانے سے روک سکے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور میں ٹوئٹر کا بھرپور استعمال کیا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر سیاسی مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور دیگر ملکوں اور عالمی رہنماؤں کا مذاق اڑایا۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے کئی اہلکاروں کو ٹوئٹر پر بےعزت کرتے ہوئے برخاست کرنے کی روش بھی ڈالی۔
حالیہ چند ماہ میں ٹوئٹر نے الیکشن میں دھاندلی سے متعلق غلط بیانی پر ان کی ٹوئٹس کی نشاندہی بھی کی اور کچھ پر قدغنیں بھی لگائیں۔
تاہم پچھلے ہفتے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت پر ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی اور ہنگامہ آرائی کے بعد ٹوئٹر نے ان کا اکاؤنٹ مستقل طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا۔
ان ہنگاموں میں پانچ لوگ مارے گئے۔ ٹوئٹر کے مطابق صدر ٹرمپ کے بیانات سے مزید خون خرابے کا خطرہ تھا۔
اس کے بعد جمعرات کو فیس بک نے بھی صدر ٹرمپ کا اکاؤنٹ بند کردیا۔ ابتدائی طور پر یہ پابندی نو منتخب صدر جو بائیڈن کی بیس جنوری کو تقریب حلف برداری تک ہوگی لیکن قوی امکان ہے کہ فیس بک اس بندش کو غیر معینہ مدت کے لیے بڑھا دے۔
جرمنی میں کئی سیاسی رہنما اور حکومتی وزرا ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں تاہم چانسلر انگیلا میرکل کا اپنا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں۔
ش ج / ص ز (اے پی، ڈی پی اے)